ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
اس دن مکہ مکرمہ کا درجہ حرارت 40 تھا۔ ظہر اور عصر کے درمیان اس تپش میں اور تیزی آجاتی ہے۔ ہم دونوں عصر کے نماز کیلئے اپنے ہوٹل سے نکلے تو گرمی کا احساس ہوا۔ حرمین شریفین میں جون جولائی عموماً گرم ہوتا ہے۔ ہوٹل سے حرم تک جاتے جاتے ہم دونوں پسینے پسینے ہوگئے۔ تیز تیز قدموں سے صحن پار کیا۔ باب فہد میں داخل ہوئے تو جیسے سانس بحال ہوگئی۔ خواتین کے حصے میں رکھے ہوئے ٹھنڈے زم زم کے کولر سے پانی نکالا اور تین گلاس بھر کر پیا۔ زم زم کے پیتے ہی طبیعت میں تازگی آگئی۔ کیسا عجیب معجزاتی پانی ہے، جو ہزاروں سال سے کروڑوں لوگوں کو سیراب کر رہا ہے اور اس میں ذرا سی بھی کمی نہیں آتی۔
اس وقت جب حرمین شریفیں دنیا کے جدید ترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں، چار ہزار سال پہلے اس بیاباں اور غیر ذی ذرع وادی میں پانی کی کتنی ضرورت ہوگی۔ میں زم زم پی کر پرسکون ہوگئی۔ عصر کی اذان سے پہلے میں نے تحیۃ المسجد کے دو نفل اور دو نفل شکرانے کے ادا کئے۔ زم زم ملنے کا شکرانہ۔ مسلمانوں کے لئے زم زم خدا کی بہت بڑی نعمت ہے، جو غذا بھی ہے، دوا بھی ہے اور ہر قسم کی بیماری کیلئے شفا بھی ہے۔ عصر کی نماز پڑھ کر میں نے قرآن مجید سنہری الماری میں سے نکالا۔ تیرہویں پارے کی سورۃ ابراہیم میرے سامنے کھلی ہوئی تھی، جس میں حضرت ابراہیمؑ اپنے معصوم بیٹے اور وفا شعار بیوی کو مکہ کے بیابان میں چھوڑ کر جاتے ہوئے ثنیہ نامی ٹیلے کے قریب (یہ جگہ اب محلہ شبیکہ کی طرف واقع ہے) پہنچ کر حق تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں:
ترجمہ: ’’اے میرے رب! میں اپنی اولاد کو تیرے محترم گھر کے قریب ایک چٹیل میدان جو ناقابل زراعت ہے آباد کرتا ہوں، تاکہ وہ نماز کا اہتمام کریں۔ تو لوگوں کے دلوں کو ان طرف مائل فرما دے اور انہیں پھلوں سے رزق رحمت فرما دے تاکہ تیرا شکر ادا کریں۔‘‘
حق تعالیٰ نے اسی دعا کی برکت سے اسی پہاڑی شہر میں دنیا جہاں کے پھل عطا کئے ہیں۔ طائف کی زمین حجاز کی جان ہے، جہاں پانی کی فراوانی، انواع و اقسام کے پھل اور سرسبز و شاداب باغات ہیں۔ اس مکہ کی خشک اور پہاڑی زمین میں ’’زم زم‘‘ کا چشمہ ہے، جس کی وجہ سے مکہ میں یمن کا قبیلہ بنو جرہم آباد ہوا اور آہستہ آہستہ آبادی بڑھتی گئی۔
میں قرآن مجید کی تلاوت کررہی تھی، مگر میرا ذہن ’’زم زم‘‘ میں اٹکا ہوا تھا۔ میں اپنے ساتھ ہمیشہ خالی بوتل لے کر حرم آتی تھی، تاکہ زم زم بھر کر اپنے پاس رکھ لوں۔ رش کی وجہ سے زم زم کے کولر تک پہنچا اور وہاں سے بوتل بھرنا مشکل تھا۔ میں نے اپنی بوتل بھر کر اپنے پاس ہی رکھ لی۔ میرے برابر میں ایک بوڑھی مصری خاتون وہیل چیئر پر بیٹھی پانی کی بوتل کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ میں نے زم زم بھرتے وقت دو گلاس رکھ لئے تھے۔ میں نے ایک گلاس بوتل میں سے بھر کر ان کی طرف بڑھایا۔ انہوں نے فوراً ہونٹوں سے لگالیا، مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ شدید پیاسی ہیں۔
حرم کے یخ بستہ موسم کے باوجود پیاس بار بار محسوس ہورہی تھی۔ میں نے ان کے گلاس کو دوبارہ بھر کر ان کی طرف بڑھا دیا۔ ’’شکراً کثیراً‘‘ کہہ کر انہوں نے دوبارہ گلاس ہونٹوں سے لگالیا۔ میں نے اشارے سے مزید پانی کیلئے پوچھا، انہوں نے جواب میں میرا بڑھایا ہوا ہاتھ چھوم لیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ پانی خدا کی کتنی بڑی نعمت ہے اور خصوصاً معذوری اور محتاجی میں جب پیاس شدید ہو اور پیروں میں اٹھنے کی طاقت نہ ہو تو اس نعمت کا مل جانا واقعی دینے والے کا اسیر کر دیتا ہے۔ اب ان کو لروں سے زم زم کا نکالنا اور گلاسوں میں پینا کتنا آسان ہے۔
حضور اکرمؐ ایک مرتبہ چاہ زم زم پر تشریف لائے تو دیکھا لوگ پانی کنویں سے نکال کر خود بھی پی رہے ہیں اور دوسروں کو بھی پلا رہے ہیں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’تم اس کام میں لگے ہو، بلاشبہ یہ کار خیر ہے۔ اگر مجھے اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ سب لوگ میری اتباع کے شوق میں خود پانی نکالنے لگیں گے اور تم ان کو قابو نہ کرسکو گے تو میرا جی چاہتا ہے کہ میں خود بھی رسی کھینچ کر پانی نکالوں‘‘۔
آپؐ کی یہ حدیث مجھے یاد آئی تو میں نے قرآن مجید بند کر کے الماری میں رکھا اور زم زم کے کولر سے اپنی بوتل کے علاوہ چار گلاس زم زم بھر کے لے آئی اور ایسی تمام خواتین کو جو وہیل چیئر پر بیٹھی ہوئی تھیں، پانی پلانا شروع کردیا۔ میں نے محسو س کیا وہ سب پیاسی تھیں، کیوں کہ انہوں نے جس تڑپ سے زم زم پیا اور تشکر آمیز نظروں سے مجھے دیکھا، مجھے لگا میری محنت وصول ہوگئی۔ اس دن سے میں یہ معمول بنا لیا تھا کہ میں جتنے دن مکہ اور مدینہ میں رہی، پیاسی اور خصوصاً معذور اور مجبور خواتین کو پانی (زم زم) پلاتی رہی۔
میں نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ 1973ء تک کنویں سے ڈول کے ذریعے پانی نکالا جاتا تھا۔ اس کے بعد جدید مشینی سسٹم نصب کر دیا گیا، جس کے ذریعے پانی نکال کر ٹنکی میں جمع کر دیا جاتا اور اس پر لگے ہوئے نلوں سے پانی استعمال ہوتا ہے۔ مطاف میں چاہ زم زم کعبہ شریف سے 21 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس پر ’’بئر زم زم‘‘ لکھا ہوا ہے۔ بئر زم زم سے نکلنے والے پانی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ جنت کے چشموں میں سے ایک چشمہ ہے، جو حق تعالی نے حضرت ابراہیمؑ کی دعا کے نتیجے میں ان کے معصوم بیٹے اور بیوی کو عطا فرمایا اور یہی بئر زم زم مکہ کی آبادی کا باعث بنا۔
قبیلہ بنو جرہم شام جانے کے ارادے سے نکلا تو راستہ بھول کر اس طرف آگیا۔ مکہ کے نشیبی علاقہ میں خیمہ زن تھا کہ ایک دن انہوں نے ایک آبی پرندہ فضا میں اڑتا دیکھا۔ وہ چٹیل بیابان میں اس آبی پرندے کو دیکھ کر حیران ہوگئے۔ تفتیش اور تحقیق سے زم زم کے چشمے تک پہنچے تو حیران ہوگئے۔ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ تک پہنچے۔ حضرت ہاجرہؑ سے اس علاقے میں رہنے کی اجازت طلب کی اور اجازت ملنے پر یہیں آباد ہوگئے۔
بئر زم زم حرم شریف کے احاطے میں خدا تعالیٰ کی زندہ و جاوید نشانی ہے۔ اس چشمے کے شیریں پانی سے ہزاروں سال سے لوگ سیراب ہو رہے ہیں۔ زائرین لاکھوں کی تعداد میں زم زم کے کین اپنے شہروں میں لے کر جاتے ہیں۔ یہ پانی زمین پر سب سے مقدس پانی ہے۔ آپؐ کا قلب اطہر ایک سے زائد مرتبہ اس سے دھویا گیا۔ اس پانی کو اگر بھوک میں پیا جائے تو انسان شکم سیر ہو جاتا ہے۔ بیماری میں پیا جائے تو دوا بن جاتا ہے اور دوا بن کر شفا دیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ جس نیت سے پیا جائے رب تعالیٰ اس کو پورا کرتا ہے۔
زم زم نیک لوگوں کا مشروب ہے۔ کمزوری میں طاقت بخشتا ہے۔ روئے زمین پر سب سے قدیم چشمہ ہے۔ کثیر تعداد میں پینے کے باوجود اس سے گرانی نہیں ہوتی۔ اس کو قبلہ رخ کھڑے ہوکر بسم اللہ پڑھ کر تین سانس میں پینا مسنون طریقہ ہے۔ میں بھی آب زم زم کو ہمیشہ کھڑے ہوکر قبلہ رخ کر کے بسم اللہ پڑھ کر تین سانس میں ہی پیتا ہوں اور ہر پینے والے کو اس کی تاکید بھی کرتا ہوں۔
جدید ترین تحقیق کے مطابق مختلف چشموں سے زم زم کا ابال 11 سے 18.5 لیٹر فی سیکنڈ، 660 لیٹر فی منٹ اور 39600 لیٹر فی گھنٹہ ہے۔ ان چشموں میں سے ایک کا دہانہ حجر اسود کی طرف سے کھلتا ہے، جس کا طول 75 سینٹی میٹر اور بلندی 30 سینٹی میٹر ہے۔ سب سے زیادہ پانی اسی چشمے سے نکلتا ہے۔ ایک چشمہ مکبریہ (اذان کی جگہ) کے سامنے ہے۔ چھوٹے چھوٹے چشمے صفا اور مروہ کی طرف سے بھی آتے ہیں۔
مسجد حرام سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر محلہ کدیٰ میں 1415ھ میں ایک ٹنکی میں زم زم کی وافر مقدار کو محفوظ کرنا شروع کیا گیا۔ مشینی سسٹم آب زم زم کو کنویں سے ٹنکی میں منتقل کرتا ہے۔ اس ٹنکی کی وسعت 1500 مکعب میٹر ہے۔ یہاں سے پانی کے گیلن اور ٹینک بھر کر ملک کے مختلف حصوں میں بالخصوص مسجد نبویؐ میں پہنچائے جاتے ہیں۔ تقریباً ساڑھے چار سو کلو میٹر فاصلے کے باوجود مسجد نبویؐ میں کسی وقت بھی زم زم کی کمی نہیں ہوتی اور جو زائرین مکہ سے زم زم اپنے شہر نہیں لے جا پاتے، وہ مدینہ میں مسجد نبویؐ سے حاصل کر لیتے ہیں اور تبرکاً اپنے اپنے شہروں میں لے جاتے ہیں۔
آب زم زم میں جو اجزا شامل ہیں، وہ میگنیشم سلیفٹ قے متلی سر درد کیلئے اکسیر ہے۔ سوڈیم سلیفٹ خونی پیچس کیلئے شفا ہے۔ کیلشیم کاربونیٹ ہاضمہ کیلئے بہترین، گردے اور پتھری کو توڑنے اور ختم کرنے کے لئے مفید ہے۔ اس میں شامل سوڈیم کلورائیڈ ہے، جو دمہ اور آلات تنفس کی بیماریوں کے لئے اکسیر ہے۔ پوٹاشیم نائٹریٹ تھکن کے لئے مفید اور پیشاب آور ہے۔ ہائیڈروجن سلفائڈز کام کے لئے بہترین جراثیم کش ہے۔ غرض کہ خدا کا یہ معجزاتی پانی شفا بھی ہے، دوا بھی ہے اور غذا بھی ہے۔
Prev Post
Next Post