انسانی آنکھ قدرت کا شاہکار

0

جب آپ کچھ لمحوں کے لیے ایک قلم کو اپنے ہاتھ میں دیکھتے ہیں تو اربوں قسم کے مختلف عمل آنکھ میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ روشنی قرنیہ اور پیوپل سے گزرتی ہے اور عدسہ تک پہنچتی ہے، جہاں پر روشنی کے حساس خلیے اسے برقی حراروں میں تبدیل کرتے ہیں اور اعصابی نظام تک ان کی ترسیل ہوتی ہے۔ پردئہ چشم تک پہنچنے والی تصویر بالکل الٹی اور اوندھی ہو جاتی ہے، تاہم دماغ اسے سمجھ سکتا ہے، دونوں آنکھوں سے علیحدہ علیحدہ تصویروں کو جمع کرکے، اس شے کے نقوش کی شناخت کرکے اور دونوں آنکھوں سے لی گئی تصاویر کو ملا کر ایک تصویر بناتا ہے اور ایک بالکل ٹھیک حالت میں تصویر کو پیش کرتا ہے۔ یہ اس شے کی ساخت، رنگ اور فاصلے کا بھی تعین کرتا ہے۔ آنکھیں یہ سب ایک سیکنڈ کے دسویں حصے میں کرتی ہیں۔
ایسا ہی عمل دماغ میں بھی ہوتا ہے، چاہے آپ کوئی چھوٹا سا نقطہ دیکھیں یا ایک بڑا جہاز دیکھیں، نتیجتاً بننے والی تصویر صرف ایک ملی میٹر کے حصے میں ہوتی ہے۔ آپ کبھی بھی اس بات کا یقین نہیں کر سکتے کہ آپ کے ہاتھ میں موجود قلم آپ سے کتنا قریب ہے یا ایک دور کھڑا پانی کا جہاز ایک پینسل سے بڑا ہے، کیونکہ دماغ کے جس حصے میں یہ تصاویر بنتی ہیں، اس کا رقبہ سب کے لیے برابر ہے۔ تاہم جس چیز کو بھی آپ دیکھتے ہیں، وہاں ایک فاصلے کو محسوس کرنے کی حس موجود ہے، ورنہ آپ کس طرح آسانی کے ساتھ ہاتھ بڑھا کر گلاس کو اٹھائیں گے؟ خدا نے یہ بے عیب عضو تخلیق کیا ہے، اسے ایک ناقابل تصور لطیف جزئیات سے آراستہ کیا ہے اور دماغ کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ کسی چیز کو دیکھ سکے، جہاں وہ ہے، اس کی مکمل تفصیلات کے ساتھ۔ غیر معمولی پیچیدہ انسانی آنکھ بھی اس ذات پاک کے عظیم کاموں میں سے صرف ایک عمل ہے۔
کوئی انسانی صنعت یہ کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتی۔ یہ سمجھنے کے لیے مستقل تحقیق ہو رہی ہے کہ کس طرح آنکھ یہ حیرت انگیز کام انجام دے سکتی ہے اور سائنسدان یہ معلوم کرنے کی جدوجہد میں ہیں کہ کس طرح یہ ہمیں رنگین دنیا کا نظارہ کراتی ہیں۔ بے شک نا تو آنکھیں، جو کہ رقبہ میں کچھ سینٹی میٹر کے برابر ہیں اور نہ ہی دماغ کا وہ ملی میٹر سائز کا حصہ جہاں تصویر بنتی ہے، یہ رنگین دنیا بنانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ روح ہے جو باہر پائی جانے والی اشیاء کو دیکھتی ہے اور دماغ کے اندر اس کو واضح کرتی ہے۔ خدا جو قادر مطلق ہے، انسان کی پیدائش کے وقت اپنی روح پھونک کر، اس نے لوگوں کو دیکھنے کے، ادارک کرنے اور محسوس کرنے کے قابل بنایا اور چیزوں کو انسان کے لیے مسخر کردیا۔ تصوریر جو بنتی ہے اور حیرت انگیز آنکھیں جو اس کا ادراک کرتی ہیں اور ان گنت نظام جو اس تمام کام میں شامل ہیں، صرف اس لیے کہ خدا نے ایسا چاہا۔
’’اور تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟‘‘ (القرآن)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More