سعودی عرب کے بعد متحدہ عرب امارات بھی پاکستان کو ادھار تیل دے گا۔ اس سلسلے میں تمام معاملات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النیہان کو آج (بروز اتوار) وزیر اعظم عمران خان اپنے دفتر میں ظہرانہ دے رہے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات پاکستان کو جو ادھار تیل دے گا، اس کی مالیت تین ارب بیس کروڑ ڈالر بتائی گئی ہے۔ یہ سہولت ان تین ارب ڈالر کے علاوہ ہے جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر کا توازن قائم رکھنے کے لیے دیئے جائیں گے۔ اس طرح پاکستان کے لیے متحدہ عرب امارات کا کل پیکیج چھ ارب بیس کروڑ ڈالر ہو جائے گا۔ آج وزیر اعظم عمران خان اور متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النیہان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں پاکستان کو ادھار پر تیل کی فراہمی کا باضابطہ اعلان کئے جانے کی امید ہے۔ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سے نقد قرضوں اور ادھار تیل کی فراہمی کے باوجود پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر بتدریج کم ہو رہے ہیں۔ خبروں کے مطابق بڑھتی ہوئی بیرونی ادائیگیوں کے باعث گزشتہ ایک ماہ کے دوران زرمبادلہ کے ذخائر میں دو ارب ڈالر کی کمی ہو گئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ماضی میں حاصل کئے جانے والے قرضوں اور اقتصادی خسارے کے باعث ادائیگیوں کا توازن بری طرح بگڑا ہوا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کو کم و بیش بارہ ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگی کرنی ہے۔ حکومت کی ناقص اقتصادی پالیسیوں کے باعث ایک طرف ضرورت کے مطابق امداد اور قرضے نہیں مل رہے ہیں تو دوسری جانب درآمدات میں اضافے پر قابو پایا جا سکا، نہ برآمدات میں اضافہ ہو سکا۔ اس کی وجہ سے جہاں توازن ادائیگی کا فرق بڑھتا جا رہا ہے، وہیں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی زبردست بے قدری کے باعث قرضوں اور خساروں کا حجم بھی مسلسل بڑھ رہا ہے، کیونکہ پاکستان کی جانب سے تمام بیرونی ادائیگیاں ڈالر کی صورت میں کی جاتی ہیں۔ ملک کے معاشی مسائل کو چشم زدن میں حل کرنے کا دعویٰ لے کر برسر اقتدار آنے والی تحریک انصاف کے پاس درحقیقت سرے سے کوئی معاشی منصوبہ ہی نہیں ہے۔ حکومت اب تک اپنی سمت کا تعین نہیں کر سکی اور ادھر ادھر ٹامک ٹویئے مار رہی ہے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ دوست ملکوں سے اتنی مدد مل جائے گی کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے گی، لیکن دوست ملکوں سے ضرورت اور اپنی شرائط پر مناسب قرضے اور سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے عمران خان کی حکومت آئی ایم ایف سے ابھی تک آس لگائے بیٹھی ہے، جبکہ اس کے وزیر خزانہ کے مطابق امریکی سرپرستی میں چلنے والے اس سود خور مالیاتی ادارے کی جانب سے شرائط پیش کئے جانے سے پہلے ہی ان کی حکومت آئی ایم ایف کے سامنے سربسجود ہو کر امریکی ڈالر کی قدر افزائی کرتے ہوئے اسے ایک سو چوالیس ڈالر تک پہنچا چکی تھی۔ اسی طرح بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں اور کئی ٹیکسوں میں اضافے کا ’’کارنامہ‘‘ بھی انجام دے چکی ہے۔
جو اصل کام کرنا تھا، اس کی جانب موجودہ حکومت کی کوئی توجہ اور پیش رفت نظر نہیں آتی۔ قومی دولت کے لٹیرے آج تک لوٹی ہوئی دولت پر قابض ہیں۔ وہ اپنی جائیدادوں اور اثاثوں سے کبھی انکار کرتے ہیں، لیکن وہ ان کے پاس بدستور موجود ہیں۔ احتساب اور لٹیروں کے خلاف مقدمات کے درجنوں ڈراموں کے باوجود سست رفتاری اور تاخیری ہتھکنڈوں کی صورت حال پاکستانی عوام اور عالمی برادری کے سامنے ہے۔ حکومت یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتی کہ مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور معاملات قانونی ہیں، اس لیے وہ کیا کر سکتی ہے۔ لوٹی ہوئی رقوم قومی خزانے میں جمع کرانے کا عمل اگر اخلاص، دیانتداری اور حب الوطنی کے جذبے سے شروع کیا جائے تو سخت آرڈی نینس کے ذریعے چند ہفتوں میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ اپنے گھر سے آغاز کئے بغیر کبھی فیصلہ کن اور مفید نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ مدینہ جیسی فلاحی ریاست قائم کرنے کا بار بار اعلان کرنے والے وزیر اعظم عمران خان اقربا پروری کے تحت تقرریوں اور بڑے ٹھیکے دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ خود اپنے بے پناہ مال و اسباب کو غریب قوم کے حق میں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تو اپنی پارٹی کے امیر و کبیر لوگوں سے کیونکر یہ مطالبہ کر سکتے ہیں، جبکہ ملک مسلسل اقتصادی تنزل کا شکار ہو رہا ہے۔ حکومت کو سنہرے خواب دکھانے سے فرصت ملے تو وہ عملی اقدامات بھی کرے۔ پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کے خالی خولی اعلانات سے حکومت ہو سکتی ہے، نہ ملک چلایا جا سکتا ہے۔ جس دور حکومت میں عوام لگے لگائے روزگار اور بنے بنائے مکانات سے محروم کئے جارہے ہوں، وہ نئے منصوبوں کے بارے میں کیسے اور کب تک اپنے وعدے پورے کر سکے گی؟ تحریک انصاف کی حکومت کی اقتصادی حکمت عملی کا تو عالم یہ ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران سعودی عرب سے ملنے والی دو ارب ڈالر کی رقم بھی چٹ ہو کر سابقہ قرضوں اور ادائیگیوں کی نذر ہوگئی۔ ایک ماہ قبل زرمبادلہ کے جو ذخائر تیرہ ارب پچھتر کروڑ ڈالر کی سطح پر تھے، دو ارب ڈالر سعودی عرب سے ملنے کے باوجود وہ تیرہ ارب تراسی کروڑ ہی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت ڈیڑھ ماہ کی درآمدات کے لیے بھی ناکافی ہیں۔ اگر اقتصادی ناکامیوں اور ادائیگیوں کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور دوسرے ملکوں سے ملنے والی قرضوں کی رقوم بھی جلد ہی ٹھکانے لگ جائیں گی۔ کیا اس کے بعد حکومت ہاتھ جھاڑ کے کھڑی ہو جائے گی اور سابقہ حکومتوں کی طرح یہ کہہ کر وطن عزیز کے بائیس کروڑ عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرے گی کہ ہم کیا کرتے، ہمیں تو قرضوں اور خسارے کے علاوہ قومی خزانہ ہی خالی ملا۔ اگر آگے چل کر یہی مؤقف اختیار کرنا ہے، جس کے آثار واضح ہیں تو تحریک انصاف کے لیے پانچ سال تک حکومت میں رہنے کا کیا جواز ہے؟ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post