سرفروش

0

عباس ثاقب
میں نے رات کے کھانے کے بعد دونوں بہنوں سے ملاقات کی۔ میں پہلے ہی سوچ چکا تھا کہ انہیں کس حد تک معاملات کے بارے میں تفصیلات بتانی ہیں۔ تب ہی مجھے ادراک ہوا کہ میں پہلی بار انہیں اپنے بارے میں تفصیلاً بتانے والا ہوں۔ اپنی اصل پہچان بتانے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، لہٰذا میں نے خود کو وہی ظاہر کیا، جس حیثیت سے ظہیر مجھے جانتا تھا۔ ظہیر کے حوالے سے کافی کچھ وہ پہلے ہی جان چکی تھیں۔
وہ حیرت اور تجسس سے میری بتائی ہوئی باتیں سنتی رہیں۔ لیکن جب بات ہمارے آئندہ مشن تک پہنچی تو مجھے ان کی آنکھوں میں تشویش کی جھلک نظر آئی۔ وہ سمجھ سکتی تھیں کہ ہم دونوں حقیقی معنوں میں اپنی جانیں خطرے میں ڈالنے والے ہیں۔ ان کی دلی کیفیت سمجھتے ہوئے میں نے تسلی دینے کی کوشش کی ’’ہماری سلامتی کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں نے بتایا ہے ناں، ہم اس سے زیادہ خطرناک آزمائشوں سے بخیر و عافیت عہدہ برآ ہوچکے ہیں۔ جہاں تک خطرے کا تعلق ہے، تو ہم یہاں گھر میں بند ہوکر بیٹھے رہتے ہوئے بھی محفوظ نہیں ہیں‘‘۔
اچانک مجھے سمجھ میں آگیا کہ ان کی تشویش اور اندیشوں کی ایک اور بڑی وجہ کیا ہے۔ ظاہر ہے، وہ فی الحال یاسر اور ناصر پر اس طرح اعتماد نہیں کر سکتیں، جیسے مجھ پر اور ظہیر پر کرتی ہیں۔ میں نے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ دونوں چچا بھتیجا بھی ہماری ہی طرح پورے بھروسے کے قابل ہیں۔ وہ ہماری غیر موجودگی میں ان کا پورا خیال رکھیں گے اور ان پر ہر طرح سے اعتماد کیا جا سکتا ہے۔
ان کی نظروں میں بدستور خدشات منڈلاتے دیکھ کر میں نے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا ’’بھئی بات تو سیدھی ہے۔ کسی بھی شخص پر اعتماد کرنے سے پہلے اسے آزمانا تو پڑتا ہے۔ میں اور ظہیر ان دونوں کو اچھی طرح آزماچکے ہیں اور یہ ہماری توقع سے بڑھ کر اچھے انسان ثابت ہوئے ہیں‘‘۔
تبھی جمیلہ نے جوشیلے اور پُر اعتماد لہجے میں کہا ’’آپ ہماری فکر نہ کریں۔ ہم تو شیطانوں کے پنجرے میں قید رہ کر بھی اپنا تحفظ کر چکی ہیں۔ اب تو میرے پاس آپ کا دیا ہوا قابلِ اعتماد تحفہ بھی موجود ہے۔ ہماری طرف ترچھی آنکھ سے دیکھنے والے کو پچھتانے کا بھی موقع نہیں ملے گا!‘‘۔
اس کی بات سن کر میں بے ساختہ قہقہہ لگانے پر مجبور ہوگیا۔ یہی غنیمت تھا کہ اس نے بھرا ہوا پستول نکال کر لہراتے ہوئے یہ مکالمے ادا نہیں کیے تھے۔ میرے ہنسنے پر رخسانہ حسبِ عادت کچھ جھینپ سی گئی۔ تاہم جمیلہ نے کچھ خاص اثر نہیں لیا۔ تبھی میں نے وہ بات بھی ان سے کرنے کا فیصلہ کیا، جو ان کے پاس میرے آنے کی اصل وجہ تھی۔
میں نے سنجیدہ لہجے میں کہا ’’اب آپ دونوں بہنیں میری بات غور سے سنیں‘‘۔ رخسانہ میرا لہجہ بدلنے سے چونکی۔ جمیلہ بھی پوری طرح متوجہ ہو چکی تھی۔ میں نے بدستور سنجیدہ لہجے میں کہا ’’ہمیں پختہ یقین ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے ہم اس آزمائش میں سرخرو ہوکر بخیر و عافیت واپس آجائیں گے۔ لیکن فراست کا تقاضا ہے کہ ہم کسی غیر متوقع صورتِ حال کے لیے بھی پہلے سے تیار ہوں‘‘۔
میں نے جان بوجھ کر بات آگے بڑھانے سے پہلے انہیں معاملے کی سنجیدگی اور گہرائی کو پوری طرح سمجھنے کا موقع دیا، اور پھر بات آگے بڑھائی ’’یہ سنگین امکان اپنی جگہ پر موجود ہے کہ شاید ہم دونوں اس مشن میں کامیاب ہوکر واپس نہ آسکیں۔ ممکن ہے ہم پولیس کے ہتھے چڑھ جائیں اور پھانسی کا تختہ یا عمر بھر جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑنا ہمارا مقدر بن جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی حادثے یا پولیس مقابلے میں ہم جان سے دھو بیٹھیں۔ ایسی کسی بھی صورتِ حال میں آپ دونوں کو اپنے بل پر اپنی زندگی گزارنے کے قابل ہونا پڑے گا‘‘۔
میری بات جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی، ان دونوں کا چہرہ خوف اور تشویش کی شدت سے زرد ہوتا گیا۔ خصوصاً رخسانہ کی حالت دگرگوں دکھائی دی۔ میں نے معاملے کی سنگینی کچھ کم کرنے کے لیے بات آگے بڑھائی ’’میری یہ بات بھی توجہ سے سن لیں۔ جیسا کہ اللہ رب العزت سے قوی امید ہے، اگر ہم اپنی مہم میں پوری طرح کامیابی حاصل کر کے صحیح سلامت واپس لوٹ آئے، تب بھی ہم دونوں زیادہ عرصے تک آپ دونوں کے پاس نہیں رہ سکتے۔ ظہیر کو اپنے وطن کشمیر کی آزادی کی پہاڑ جیسی مہم درپیش ہے، اور مجھے بھی فراغت ملتے ہی اپنی معمول کی زندگی کی طرف واپس لوٹنا ہے۔ لہٰذا آپ دونوں یہ ذہن نشیں کرلیں کہ ہمارے بعد آپ کو اپنی زندگی خود گزارنی ہے، اورآپ کو اپنے مستقبل کے بارے میں ہر فیصلے کا خود اختیار ہوگا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More