انسداد تجاوزات آپریشن گارڈن مارکیٹ بھی نگل گیا

0

عظمت علی رحمانی
میئر کراچی کا انسداد تجاوزات آپریشن گارڈن مارکیٹ بھی نگل گیا۔ سینکڑوں دکانیں منہدم کرکے ہزاروں افراد کو بیروزگار کردیا گیا۔ منتقلی کے دوران کروڑوں روپے مالیت کا سامان لاکھوں روپے کی قدر کھو بیٹھا۔ بڑی تعداد میں دکانیں توڑی جانے کی وجہ سے شہر بھر میں دکانوں کی قیمتیں اور کرائے بڑھنے لگے۔
کراچی کی قدیم مارکیٹوں میں شمار ہونے والی گارڈن مارکیٹ کو بھی میئر کراچی نے گرا دیا۔ کے ایم سی مارکیٹ گارڈن کے دکانداروں کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کیلئے کوئی حکمت عملی بنائے بغیر ہی بڑے پیمانے پر آپریشن کرکے سینکڑوں دکانیں ایک ہی روز میں مسمار کردی گئیں۔ دکاندار مایوسی کے عالم میں ملبے پر بیٹھے رہے، جبکہ بعض تاجر دکانوں سے سامان جمع کرتے رہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ کروڑوں روپے کا قیمتی سامان ایک ہی روز میں کوڑیوں کے مول کا ہوکر رہ گیا۔ گارڈن مارکیٹ کے دکانداروں نے اپنا سامان جمع کرنے کیلئے گارڈن روڈ کو بلاک کردیا تھا، تاہم پولیس نے زبردستی روڈ کھول کر دکانداروں کا کام مزید مشکل بنا دیا، جس پر دکانداروں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
اس حوالے سے محمد علی نامی تاجر کا کہنا تھا کہ ہم نے میئر وسیم اختر کو کئی بار کہا کہ ہماری دکانیں نہ گرائیں، ہمیں کوئی متبادل جگہ دیں۔ ہم اپنے بچوں کو کہاں سے کھلائیں گے۔ مگر انہوں نے ایک نہیں سنی۔ مارکیٹ میں ہماری ہارڈویئر کی دکان تھی جس کو گرادیا گیا ہے۔ گزشتہ رات کو ہی دکانداروں نے انتظامیہ کی سرگرمیوں کو بھانپ لیا تھا جس کی وجہ سے ہم لوگ دکانیں خالی کر رہے تھے۔ بولٹن ہارڈویئر اور مزدا آٹوز کے نام سے ہماری دکان تھی، ہماری دکانوں پر مجموعی طور پر 12 افراد کام کرتے تھے، جو اب بے روز گار ہو گئے ہیں۔ جبکہ مارکیٹ میں ہم نے بھی کئی دکانداروں کے پیسے دینا تھے۔ اسی طرح ہمارے بھی پیسے لوگوںکی طرف تھے۔ تاہم اب سب کچھ تتر بتر ہوکر ختم ہوگیا ہے اور اب لوگوں سے پیسے واپس لینا بھی ایک مسئلہ ہے۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ خدارا لوگوں کو بے روز گار نہ کیا جائے کیونکہ بے روزگار لوگ مایوس ہوجاتے ہیں اور مایوسی انسان کو گمراہی کی جانب لے جاتی ہے۔
فیروز احمد کا کہنا تھا کہ میری مارکیٹ میں 177 نمبر دکان تھی، میرے والد صاحب یہاں 60 برس کاروبار کرتے تھے، ہماری بیٹریوں سمیت دیگر آٹو پارٹس کی دکان تھی، والد صاحب کے انتقال کے بعد میں نے دکان سنبھالی، جہاں کئی لوگ کام کرتے تھے۔ حامد آٹوز نامی دکان پر 5 سے 10افراد کام کرتے تھے، جن کے گھروں کے چولہے بند ہو گئے ہیں۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ ہمیں متبادل جگہ فراہم کرے تاکہ ہمارا اور محنت کشوں کا روزگار ختم نہ ہو۔ حکومت کا کام روزگار دینا ہوتا ہے۔ فیزوز احمد کا کہنا تھا کہ چند روز قبل میئر کراچی وسیم اختر یہاں آئے تھے، ہم نے ان سے بات کی تاہم ان کو انسانوں سے زیادہ چڑیا گھر کے جانوروں کا خیال تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے ہماری کوئی بات نہیں سنی ۔
عقیل شاہ شنواری کا کہنا تھا کہ ہماری مچھلی کی بڑی مشہور دکان تھی۔ گارڈن آنے والا ہر دکاندار ہماری مچھلی کا ذائقہ ضرور لیتا تھا، اب ہمیں کوئی مناسب جگہ نہیں مل رہی، جس میں اپنا کام شروع کریں۔ ہم نے اس مارکیٹ میں بڑا وقت گزارا ہے، ہمیں اس جگہ سے انسیت تھی اور اب ہماری نظروں کے سامنے چلتا ہوا کاروبار اجڑ گیا ہے۔ میئر کراچی سب سے مساوی سلوک کریں، مگر انہوں نے عصبیت سے کام لینا شروع کر دیا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ لوگوں کو کاروبار دیں گے، جبکہ میئر کراچی لوگوں کو بے روز گار کررہے ہیں۔
محمد نواز نامی دکاندار کا کہنا تھا کہ میری گارڈن چڑیا گھر کے مین گیٹ کے ساتھ ہی تیسری دکان تھی۔ ہماری دکان کو تقریباً 55 برس ہوگئے ہیں جہاں ہم مچھلی اور پان وغیرہ کا کام کرتے تھے، ہماری دکان پر الحمد اللہ اچھا کام تھا۔ میئر وسیم اختر کراچی کے حالات کو بہتر تو نہیں کرسکے، لیکن انہوں نے ہزاروں لوگوں کو بیروزگار کردیا ہے۔ میرے ساتھ میرے دیگر محمود بہادر، گلاب خان اور محمود عارف بھی کام کرتے تھے اب ہمارے گھروں کے چولہے تو ٹھنڈے ہوئے ہی ہیں ساتھ میں ہمارے ہاں کام کرنے والے ملازمین بھی بیروزگار ہوگئے۔ ارباب اختیار سے التجا ہے کہ ہمارے حال پر رحم کریں اور ہمیں کوئی متبادل جگہ دیں تاکہ ہم حسب سابق حکومت کو کرایہ دیکر اپنا کام کرسکیں۔
واضح رہے کہ گارڈن چڑیا گھر کے دونوں اطرف موجود سینکڑوں دکانیں گرانے سے جہاں ہزاروں افراد بے روزگار ہوئے ہیں وہیں ان دکانوں پر کروڑوں روپے کا قیمتی سامان بھی برباد ہوگیا ہے۔ ان دکانوں پر موجود سامان بھی کوڑیوں کے مول فروخت ہو گا، کیونکہ چلتی ہوئی دکان کا سامان پہلے جیسے ریٹ پر فروخت نہیں ہو سکے گا۔ ادھر مذکورہ دکانیں گرنے کے بعد شہر بھر میں داکانوں کے کرائے بھی بڑھ گئے ہیں۔ کراچی میں تجاوزات کیخلاف جاری آپریشن سے قبل ایک دکان کا کرایہ 10ہزار روپے تھا۔ اب انہی دکانوں کا کرایہ 20 سے 25ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More