عمران خان
آن لائن فراڈ سے گاڑیوں کی خرید و فروخت کرکے شہریوں سے20کروڑ سے زائد روپے بٹورنے والے ماسٹر مائنڈ نے کراچی سینٹرل جیل میں وارداتوں کی منصوبہ بندی کی اور نئے اراکین کو بھی اپنے گینگ میں شامل کیا۔ فراڈیئے گروپ کے ارکان وارداتوں کیلئے اتوار کے اخبارات میں کاروں کی نیلامی کے اشتہارات باقاعدگی سے پڑھتے تھے اور خود خریدار بن کر گاڑیوں کی معلومات حاصل کرتے اور تصویریں بناتے۔ پھر شہریوں کو دھوکہ دینے کیلئے بینکوں اور بڑی کمپنیوں کے تحت نیلام کی جانے والی گاڑیوں کی تصاویر مکمل معلومات کے ساتھ او ایل ایکس (OLX) نامی اشتہاری ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دیتے۔ رقوم کی وصولی کیلئے شہریوں کے نام پر معمولی کمیشن کا لالچ دے کر بینک اکائونٹس کھلواتے تھے۔ گزشتہ ہفتے سندھ رینجرز کی جانب سے کی گئی کارروائیوں میں کاروں کی خرید و فروخت کے آن لائن فراڈ میں ملوث اس دس رکنی گروپ کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ملزمان کو بعد ازاں ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کراچی کے حوالے کیا گیا۔ جن کے خلاف آن لائن فراڈ پر سائبر کرائم ایکٹ کے تحت 2019ء کی پہلی ایف آئی آر درج کی گئی۔ گرفتار ملزمان میں سرغنہ اعظم بٹ، نذرالقادر، شاہ میر، کامران، ابراہیم نفیس، علی عاطف، عرفان بشیر، منیر خان، فیضان رفیع اور نوید مرزا شامل ہیں۔ ملزمان کے قبضے سے 28 موبائل فون،4 لیپ ٹاپ، 12 موبائل سمیں اور دیگر سامان ضبط کرلیا گیا ہے۔
مقدمہ درج کرکے ملزمان سے تفتیش کی گئی تو انکشاف ہوا کہ اس گروپ میں شامل چار ملزمان جن میں اعظم بٹ، عرفان بشیر، منیر خان اور ابراہیم نفیس شامل ہیں، پہلے بھی ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہیں۔ ان میں سے تین ملزمان اعظم بٹ، منیر خان اور عرفان بشیر 2016ء میں او ایل ایکس نامی ویب سائٹ پر کاروں کی تصاویر اور معلومات کا اشتہار لگا کر شہریوں سے 2 کروڑ روپے کی رقم لوٹ چکے تھے اور اس الزام میں ہی انہیں جیل بھیجا گیا تھا۔ تاہم جیل میں ملزمان نے ایک نیا گینگ تشکیل دیا اور پہلے جن خامیوں اور غلطیوں کی وجہ سے ان کی گرفتاری عمل میں آئی تھی، انہیں دور کرکے نئی وارداتیں کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق مرکزی ملزمان کیخلاف 2016ء میں درج ہونے والے مقدمے میں تمام ثبوت اور فارنسک شواہد حتمی چالان کا حصہ بنا کر عدالت میں جمع کروائے جاچکے ہیں۔ اب عدالت کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ اس قسم کے جرائم میں اینٹی سائبر کرائم ایکٹ کی دفعات کے تحت 12 سے 14 برس سزا ہوسکتی ہے۔ ذرائع کے بقول ملزمان نے گزشتہ چند مہینوں میں اتنی صفائی سے وارداتیں کیں کہ عام شہریوں کے علاوہ حساس ادارے کے افسران کو بھی لوٹنے میں کامیا ب رہے۔ ملزمان وارداتوں کی منصوبہ بندی کرنے کیلئے ہر اتوار کے موقر جریدوں کا تفصیلی مطالعہ کرتے تھے۔ چونکہ اتوار کے اخباروں میں بڑے بینک اور معروف کمپنیاں، کاروں کی نیلامی کیلئے اشتہارات دیتی ہیں، تو ملزمان ان اشتہاروں کو اپنے پاس محفوظ کرکے پہلے خود اشتہاروں میں دیئے گئے پتوں پر جاتے اور خود کو خریدار ظاہر کرکے نیلامی میں شرکت کرنے اور گاڑیاں خریدنے میں دلچسپی ظاہر کرکے نہ صرف بکنے والی کاروں کی تمام معلومات جمع کرلیتے، بلکہ ان کی تصایر بھی بنالیتے تھے۔ اس کے بعد یہ تصایر اسی معلومات کے ساتھ اشتہار کی صورت میں او ایل ایکس نامی ویب سائٹ پر جاری کر دیتے۔ رابطہ کیلئے ایک موبائل نمبر بھی دیتے تھے۔ کاروں کو خریدنے میں دلچسپی رکھنے والے شہری اشتہارات دیکھنے کے بعد جب دیئے گئے موبائل نمبر پر رابطہ کرتے تو یہ پڑھے لکھے ملزمان انتہائی مہذب انداز میں شہریوں سے ڈیلنگ کرتے اور خود کو بینک اور معروف کمپنیوں کے منیجر اور ڈیلنگ آفیسر ظاہر کرتے۔ ملزمان شہریوں کو لالچ دینے کیلئے اور خریداری پر اکسانے کیلئے کم سے کم میں گاڑی فروخت کرنے کی پیشکش کرتے تھے۔ تاہم اس کیلئے یہ شرط رکھی جاتی کہ وہ خریداری کیلئے صرف انہی سے بات کریں گے اور ادائیگی بھی انہی کو کریں گے۔ ملزمان نے تفتیش میں مزید بتایا کہ جب ان سے رابطہ کرنے والے شہری گاڑیاں دیکھنے کی فرمائش کرتے تو وہ انہیں مذکورہ بینک یا کمپنی کا وہ ایڈریس دے دیتے تھے، جہاں پر نیلامی کیلئے گاڑیاں موجود ہوتی تھیں۔ تاہم ساتھ ہی تاکید کرتے تھے کہ وہ صرف خاموشی سے گاڑیاں دیکھ کر اپنی تسلی کر آئیں۔ اسٹاف سے کوئی بات چیت نہ کریں، ورنہ انہیں بینک یا کمپنی کے مقررکردہ نرخوں پر ہی گاڑیاں ملیں گی۔ اگر وہ خاموشی سے گاڑیاں دیکھ کر واپس آجائیں گے تو انہیں نیلامی میں سستے داموں گاڑیاں مل سکتی ہیں۔ چونکہ ملزمان خود کو انہی بینکوں اور کمپنیوں کے آفیسرز ظاہر کرتے تھے، اس لئے جب شہری دیئے گئے پتوں پر جا کر گاڑیاں دیکھتے تو انہیں او ایل ایکس پر دیئے گئے اشتہارات کے عین مطابق گاڑیاں مل جاتیں، جن کے نمبر پلیٹ اور دیگر کوائف بھی وہی ہوتے تھے جو ملزمان اپنے اشتہار میں فراہم کرتے تھے۔ اس لئے ایک دو لاکھ روپے کم قیمت میں گاڑیاں خریدنے کے لالچ میں شہری گاڑیاں دیکھنے کے بعد تسلی ہونے پر دوبارہ ملزمان سے رابطہ کرکے ان کے بتائے ہوئے بینک اکائونٹس میں پہلے ایڈوانس رقم ٹرانسفر کردیتے اور اس کے بعد پوری ادائیگی بھی کردیتے۔ تاہم جب شہری رقم ادا کر دیتے تو یہ ملزمان دیئے گئے موبائل نمبرز بند کر کے غائب ہوجاتے تھے۔
ملزمان سے تحقیقات میں اب تک 5 بینک اکائونٹس سامنے آچکے ہیں، جن کے ذریعے شہریوں سے رقوم وصول کی گئی۔ ان کائونٹس کو ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کی جانب سے منجمد کرادیا گیا ہے۔ تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ یہ تمام بینک اکائونٹس ایسے سادہ لوح اور غریب شہریوں سے کھلوائے گئے، جن کے پاس دو وقت کے کھانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔ تاہم ان غریبوں کو 10 ہزار سے 15 ہزار روپے کا لالچ دے کر ان کے ناموں پر یہ کہہ کر بینک اکائونٹ کھلوائے گئے کہ ان کے اکائونٹس میں کمپنی کے پیسے آئیں گے، جس میں سے انہیں بھی حصہ ملے گا۔ ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے ذرائع کا کہنا ہے کہ 2017ء میں مئی کے مہینے میں بھی اسی گروپ کے دو ملزمان وقاص اور نبیل گل کو گرفتار کیا گیا تھا، جنہوں نے ایک کروڑ روپے سے زائد بٹورے تھے۔ اُس وقت بھی جب تحقیقات کی گئی تھیں تو معلوم ہوا تھا کہ ان ملزمان کے تانے بانے انہی ملزمان سے ملتے ہیں، جو ماضی میں شہریوں سے آن لائن فراڈ کرتے رہے ہیں۔ اس وقت وہ جیل میں تھے اور اپنی ضمانت کرانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ان ملزمان میں اعظم رحمان بٹ، عرفان بشیر اور منیر خان ایک سال سے زائد عرصہ جیل میں رہے۔ بعدازاں ملزمان نے 2016ء میں ستمبر میں عدالت میں اپنے جرم کا تحریری اعتراف کیا اور 2017ء میں اپریل میں مذکورہ مقدمہ کے مرکزی ملزم عرفان بشیر اور منیر خان کو ضمانت پر رہائی مل گئی۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ مقدمے میں مرکزی ملزم عرفان بشیر کے نام پر وہ بینک اکائونٹ تھا، جس میں شہریوں سے فراڈ کی رقم منتقل کی گئی۔ جبکہ فراڈ میں استعمال ہونے والی انٹرنیٹ ڈیوائس بھی اسی کے نام پر تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ اس سے قبل 2013ء میں بھی ایف آئی اے نے او ایل ایکس (OLX) پر گاڑیوں کی خرید و فروخت میں شہریوں سے 2 کروڑ سے زائد کا فراڈ کرنے والے دو ملزمان نجی بینک کے منیجر شارق حسین اور اس کے ساتھی عمران ملک کی نشاندہی کی تھی، جو آج تک گرفت میں نہیں آسکے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ شہریوں سے فراڈ میں ملوث مافیا کے خلاف کم وسائل میں ایف آئی اے سائبر کرائم کارروائی تو کرتی ہے، لیکن جو ملزمان پکڑے جاتے ہیں، وہ ضمانت حاصل کر لیتے ہیں۔ جس سے ایف آئی اے کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ان ذرائع نے بتایا کہ آن لائن فراڈ میں استعمال ہونے والی ویب سائٹ او ایل ایکس بھارتی ساختہ ہے، جو فراڈ میں ملوث ملزمان کا ریکارڈ فی الحال فراہم کر رہی ہے۔ لیکن اگر ویب سائٹ انتظامیہ نے ریکارڈ فراہم کرنا بند کر دیا تو فراڈ میں ملوث ملزمان کے خلاف کارروائیاں مزید متاثر ہو جائیں گی۔
Next Post