اے ٹی ایم کارڈ فراڈ میں ملوث بینک افسر گرفتار

0

محمد زبیر خان
ایف آئی اے گوجرانوالہ کے انسپکٹر شاہد مجید نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ گوجرانوالہ ایف آئی اے نے شکایات اور ثبوت ملنے پر بینک الفلاح کے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے انچارج وسیم فاروق کو گرفتار کرلیا ہے۔ ان کے مطابق گزشتہ کچھ عرصہ سے مذکورہ بینک کے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کئی اکائونٹ ہولڈرز نے شکایت درج کرائی تھیں کہ ان کے اکائونٹس میں سے رقم نامعلوم طریقے سے غائب کر دی جاتی ہے۔ جب تفتیش کی گئی تو پتا چلا کہ جس افسر کے پاس تمام لوگوں کا ڈیٹا موجود تھا، وہی اس فراڈ میں ملوث ہے۔ وہ اس ڈیٹاکی مدد سے اکائونٹ میں سے رقم غائب کر دیتا تھا۔ ایف آئی اے انسپکٹر کا کہنا ہے کہ ملزم وسیم فاروق بینک کے فراڈ یونٹ کا انچارج بھی تھا۔ ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور اس سے تفتیش جاری ہے۔ کیونکہ فراڈ میں ممکنہ طور پر اس کے کچھ ساتھی بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اے ٹی ایم کارڈز گوجرانوالہ شہر ہی میں استعمال کر کے ان سے رقوم نکالی گئیں۔ ملزم کے قبضے سے 100 جعلی اے ٹی ایم کارڈ بھی برآمد کئے گئے ہیں۔
ایف آئی اے کے مطابق ابتدائی تفتیش کے دوران ملزم وسیم فاروق نے جو معلومات فراہم کی ہیں، ان سے اس کا ملوث ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ملزم نے تفتیش کے دوران بتایا ہے کہ شعبے کا سربراہ ہونے کی وجہ سے اسے ملک بھر کے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اکاؤنٹ ہولڈرز کی معلومات یا ڈیٹا تک رسائی حاصل تھی۔ ایف آئی اے کے ذرائع کے مطابق ملزم نے انتہائی سادہ طریقہ واردات اختیار کیا ہوا تھا۔ ملزم صارفین کا ڈیٹا بینک سے چوری کرتا تھا۔ اے ٹی ایم مشین میں استعمال ہونے والے خالی کارڈ اس کو مارکیٹ سے باآسانی مل گئے تھے۔ یہ ایسے کارڈز تھے، جن پر موجود چِپ یا اسٹرپ پر کوئی ڈیٹا موجود نہیں تھا۔ ایف آئی اے کے مطابق اے ٹی ایم کارڈ پر تحریر کرنے کیلئے مخصوص مشین استعمال کی جاتی ہے، جسے ایم ایس آر ڈبلیو یعنی میگنیٹک اسٹرپ ریڈر اینڈ رائٹر کہتے ہیں۔ بینک کے مجاز افسران کے علاوہ کوئی شخص یہ مشین نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی کوئی اسے بینک سے باہر لے جا سکتا ہے۔ ملزم وسیم فاروق نے یہ مشین انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن تجارت کی ویب سائٹ او ایل ایکس پر آرڈر کر کے منگوائی تھی۔ اس مشین کی مدد سے ہی اس نے صارفین کا چوری شدہ ڈیٹا جعلی کارڈوں پر تحریر کیا۔
واضح رہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں شروع کیا گیا تھا۔ اس کے ذریعے رجسٹرڈ مستحقین کو سالانہ 20 ہزار روپے کی رقم دی جاتی ہے۔ تین ماہ بعد وہ پانچ ہزار روپے سے زیادہ بینک سے نہیں نکلوا سکتے۔ تاہم زیادہ تر افراد بیٹیوں کی شادیوں یا دیگر ضروری اخراجات کیلئے یہ رقم مہینوں تک جمع کرتے رہتے ہیں اور اکٹھی نکلواتے ہیں۔ ایسے کئی صارفین کے اکاؤنٹ میں ہزاروں یا لاکھوں روپے بھی موجود ہوتے ہیں۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی طرح مذکورہ بینک میں بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے متاثرین کی فریاد کو نہیں سنا جاتا تھا، جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جدید سسٹم کے اندر اے ٹی ایم مشین پر اب انگوٹھا لگانا لازم تھا اور جب متاثرین بینک سے رجوع کرتے تو اس وقت مذکورہ ملزم ایسے متاثرین کو یہ کہہ کر فارغ کر دیتا تھا کہ انگوٹھے کے نشان کے بغیر تو رقم نکلوائی ہی نہیں جا سکتی۔ رپورٹ کے مطابق مشینوں میں انگوٹھے کا نشان مسترد ہونے کے بعد خفیہ ہندسے کے نمبر کا آپشن بھی موجود ہوتا ہے، اور ملزم خود ہی ان کا رکھوالا تھا جن کے اکائونٹس میں وہ کارروائی کرتا تھا۔
ایف آئی اے میں موجود ذرائع کے مطابق اس فراڈ کیس کے بعد اب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور دیگر بینکوں کے فراڈ میں تفتیش کا ایک نیا رخ سامنے آ چکا ہے۔ اب تک جتنے بھی بڑے فراڈ ہوئے ہیں، اس میں بینکوں کے اعلیٰ اہلکاروں سے بھی تفتیش کی جائے گی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More