لی مارکیٹ کی دکانیں گرانے سے لسانی فسادات کا خدشہ

0

امت رپورٹ
لی مارکیٹ کے تاجروں نے اپنی دکانیں گرانے پر لسانی فسادات کا خدشہ ظاہر کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میئر کراچی وسیم اختر دکانداروں کو بے روزگار کرکے جرائم کی وارداتیں بڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ موت قبول کرلیں گے، مگر کسی صورت اپنی دکانیں گرانے نہیں دیں گے۔ واضح رہے کہ لی مارکیٹ کے اطراف مختلف مارکیٹوں میں 12 سو سے زائد دکانیں موجود ہیں۔
شہر میں تجاوزات کے نام پر شروع ہونے والا آپریشن میئر کراچی وسیم اختر نے انتقامی آپریشن بنا دیا ہے۔ شہر میں ناجائز قبضوں، سرکاری زمین پر کئے گئے قبضے ختم کرانے کیلئے آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ تاہم اب تک شہر میں ایک سو سے زائد پارکوں پر ہونے والا قبضہ واگزار نہیں کرایا جا سکا ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد اور ناظم آباد سمیت کسی بھی علاقے میں تجاوزات کے خلاف صرف نمائشی آپریشن ہی کیا گیا ہے۔ دوسری جانب میئر وسیم اختر اور ان کی ٹیم شہر کے تمام بڑے کاروباری مراکز صدر ایمپریس مارکیٹ، گارڈن کے ایم سی مارکیٹ، لائٹ ہاؤس مارکیٹ اور آرام باغ مارکیٹ سمیت دیگر علاقوں میں کارروائیاں کر رہی ہے۔ وسیم اختر کی جانب سے شہر کے کئی کاروباری علاقوں میں واقع مارکیٹوں کو بھی نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں، جنہیں کسی بھی وقت گرا دیا جائے گا۔ اس کی وجہ سے ہزاروں دکانداروں اور لاکھوں محنت کش رل جائیں گے۔ جبکہ اس ضمن میں دکانداروں اور ہول سیلز کو کروڑوں رو پے کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ لی مارکیٹ کا شمار شہر کی قدیم ترین مارکیٹوں میں ہوتا ہے۔ لی مارکیٹ شہر کی ان جگہوں میں سے ہے، جہاں اب بھی برطانوی دور کی قدیم طرز کے عمارتیں موجود ہیں۔ ان عمارتوں کو خالی کرانے کیلئے ورلڈ بینک کے تعاون سے پروجیکٹ شروع کئے جارہے ہیں اور اس ضمن میں ہزاروں افراد کو بے روزگار کرنے کی قربانی بھی دی جارہی ہے۔ لی مارکیٹ کے اطراف کئی چھوٹی بڑی مارکیٹں موجود ہیں۔ جن میں 1200سے زائد دکانیں ہیں۔ جبکہ سرکاری لسٹ میں 956 دکانیں ہیں۔ لی مارکیٹ ٹاور کے ساتھ چائے کی پتی کی 40 دکانیں، سبزی و فروٹ مارکیٹ کی 102 دکانیں، اندر والی لی مارکیٹ میں کپڑون اور چپلوں کی 172 دکانیں، ٹاور کے ساتھ راشن اور چپل کی 45 دکانیں، چائے کے ہوٹلوں کے تعداد 50 کے لگ بھگ ہے۔ اس کے علاوہ بستر، تکیئے کی 50 دکانیں، دودھ منڈی کی 120 سے 130دکانیں۔ یہاں واقع ماشا اللہ مارکیٹ سب سے پرانی مارکیٹ ہے۔ واٹر بورڈ کے دفاتر کا راستہ بھی اسی مارکیٹ کے اندر سے ہے۔ اس مارکیٹ میں کے ایم سی، واٹر بورڈ، حبیبہ نائٹ اسکول کے علاوہ سرکاری اسکول اور ڈاک خانہ بھی واقع ہے۔ اس کے علاوہ مدینہ مارکیٹ اور اس کے ساتھ نالے کے اوپر بھی 200 دکانیں قائم ہیں جن کو نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔
آل لی مارکیٹ تاجر اتحاد کے چیئرمین شعیب بلوچ کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارے پاس چیف جسٹس کے حکم کی کاپی موجود ہے، جس میں لکھا ہے کہ ان کو پہلے متبادل دیں۔ اس کے بعد ان کو یہاں سے
ہٹائیں۔ جبکہ انہوں نے 3 دن کا وقت دیا ہے اور تین روز میں تو گھر بھی تبدیل نہیں ہوتا۔ ہماری اس لی مارکیٹ سے لیاری اور بلوچستان کو سودا سلف بھیجا جاتا ہے، یہ سستی ترین مارکیٹ ہے۔ لی مارکیٹ کی قدیم ترین دکانوں کو مسمار کرنے کی دھمکی شہر میں لسانی فسادات کرانے کی سازش ہے۔ لیکن لی مارکیٹ کی 961 دکانوں کے مالکان نہ تو لسانی فساد کی سازش کو کامیاب ہونے دیں گے اور نہ ہی غریبوں کی دکانیں مسمار کرنے دیں گے۔ اگر ان دکانوں کو مسمار کرنے کی سازش کی گئی تو اس مارکیٹ کے اندر ہماری قبریں ہوں گی‘‘۔
لی مارکیٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری جنرل نور محمد آفریدی کا کہنا تھا کہ ’’961 دکانوں کو نوٹس دیئے گئے ہیں۔ جبکہ 170 اس کے علاوہ اور دکانیں ہیں جو اندر بنی ہوئی ہیں۔ ہم نے ان 170 دکانوں کا علیحدہ سے کیس بھی عدالت میں دائر کیا ہوا ہے، تاکہ ہمیں کسی نہ کسی طرح سہولت ملے۔ ہمیں جو نوٹس دیا گیا ہے اس پر لکھا ہے کہ یہ پارک کی زمین ہے۔ حالانکہ ہمارے پا س چالان اور بلز موجود ہیں، مگر پھر بھی دکانداروں کو دکانیں خالی کرنے کیلئے صرف تین روز کی مہلت دی گئی ہے جو کسی طور پر درست نہیں ہے۔ اگر خانہ بدوش بھی اپنی جھگیاں دوسری جگہ پر منتقل کرتے ہیں تو انہیں طویل وقت درکار ہوتا ہے۔ اس وقت جبکہ سپریم کورٹ نے دکانوں کو خالی کرنے کیلئے 45 روز کی مہلت اور متبادل جگہ دینے کی ہدایت کررکھی ہے، ایسے میں تین روز کا نوٹس جاری کرنا عدلیہ کی توہین ہے‘‘۔
آل سٹی تاجر اتحاد کے چیئرمین حکیم شاہ کا کہنا تھا کہ ’’آرام باغ اور لائٹ ہاؤس سمیت گرائی جانے والی دیگر مارکیٹوں کے نقصان کا ازالہ اب تک نہیں ہوا ہے کہ دیگر مارکیٹیں بھی توڑنے کی تیاری جاری ہے۔ میئر کراچی وسیم اختر یہ چاہتے ہی یہ ہیں کہ لوگ بے روز گار ہو کر کراچی چھوڑ دیں۔ کیوں ان آپریشنوں کی صورت میں لوگوں کے گھروں میں فاقہ کشی کی صورتحال ہے۔ ہم نے تو ہمیشہ کے ایم سی کی دکا نیں کے کرائے ادا کئے ہیں۔ جبکہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو کاروبار دے، مگر یہاں کاروبار چھینا جارہا ہے۔ بغیر پلاننگ کی کارروائیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وسیم اختر ذاتی انتقام لے رہے ہیں‘‘۔ ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More