آئی ایم ایف ڈالر کو150روپے تک لے جانا چاہتا ہے

0

امت رپورٹ
آئی ایم ایف پاکستان میں ڈالر کی قیمت کو 150 روپے تک لے جانا چاہتا ہے۔ جبکہ ٹیکسوں کے اہداف بڑھانے کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس ٹیرف میں بھی نمایاں اضافے کا خواہش مند ہے۔ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان مذاکرات سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی حکومت اور عالمی مالیاتی ادارے کے درمیان جاری بات چیت میں آنے والے عارضی تعطل کا سبب اگرچہ کئی ایشوز ہیں۔ تاہم ان اسباب میں روپے کی قدر مزید گرانے، ٹیکسوں کی شرح میں اضافے، ٹیکسوں کے اہداف کو بڑھانے اور بجلی گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کے مطالبات سرفہرست ہیں۔ واضح رہے کہ پچھلے مختصر عرصے کے دوران ڈالر کی قیمت میں پہلے ہی ریکارڈ اضافہ ہو چکا ہے۔ اس وقت ایک امریکی ڈالر139 روپے کے لگ بھگ ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کو فکر ہے کہ اس کی جانب سے دیئے جانے والے قرضے کیسے واپس کئے جائیں گے؟ لہٰذا قرضے کی قسطوں کی بر وقت ادائیگی ممکن بنانے کے لئے آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ ہنگامی مالیاتی اقدامات کئے جائیں۔ ان فوری اقدامات میں ڈالر کی قیمت میں مزید گیارہ روپے اضافہ، ٹیکسوں کے اہداف بڑھانے اور بجلی کے ٹیرف میں 20 سے 23 فیصد تک مزید اضافے کے مطالبات شامل ہیں۔ چونکہ یہ مطالبات تسلیم کئے جانے کی صورت میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان آنے کا خدشہ ہے۔ لہٰذا اس صورت حال سے بچنے کیلئے حکومت کا اصرار ہے کہ اسے دو سے تین برس کی مہلت دی جائے۔ تاہم آئی ایم ایف اس سے انکاری ہے۔ ذرائع کے بقول آئی ایم ایف کا ایک مطالبہ بجٹ خسارے میں مزید کمی سے متعلق بھی ہے۔ لیکن ٹیکس ریونیو میں نمایاں شارٹ فال کے سبب اس معاملے میں بھی حکومت کو انتہائی پریشانی کا سامنا ہے۔ ذرائع کے بقول تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے سی پیک کے معاہدوں اور چین سے لئے جانے والے قرضوں کی تفصیلات کا اصرار اب پس پشت چلا گیا ہے۔ بعض ایسی خبریں بھی چلی تھیں کہ چین کے اعتراض پر پاکستان نے آئی ایم ایف کو یہ تفصیلات دینے سے دو ٹوک انکار کر دیا ہے، اور اب عالمی مالیاتی ادارے کی بھی زیادہ دلچسپی سی پیک سے متعلق تفصیلات کے بجائے پاکستان میں دیگر مالیاتی ایمرجنسی اقدامات پر مرکوز ہے۔ ماضی میں آئی ایم ایف سمیت چند دیگر عالمی مالیاتی ادروں کے لئے کام کرنے والے ایک ذریعے کا دعویٰ ہے کہ سی پیک کے لئے حاصل کردہ چینی قرضوں کی تفصیلات محض ایک شوشا ہے۔ چین کسی کو بھی اپنے ایگزم بینک کی گارنٹی پر قرضہ دیتا ہے۔ اس میں کوئی خفیہ بات نہیں ہوتی۔ بیشتر تفصیلات ایگزم بینک کی ویب سائٹ پر ڈال دی جاتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مزید ٹیکسوں کا نفاذ، ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنے اور بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے کے مطالبات اگرچہ آئی ایم ایف کی طرف سے ہیں۔ تاہم بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے یہ اقدامات اٹھانا خود پی ٹی آئی حکومت کی مجبوری بن چکی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں ٹیکس ریونیو میں زبردست کمی کا سامنا ہے۔ جولائی تا دسمبر کے دوران ٹیکسوں کی وصولی کی مد میں 170 سے 173 ارب روپے کا شارٹ فال ہے۔ اس کے نتیجے میں جاری مالی سال 2018-19ء کے باقی چھ ماہ کے دوران ریونیو کا طے کردہ ہدف حاصل کرنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ ذرائع کے مطابق بجٹ خسارے کو کم کرنے اور ٹیکس ریونیو کے شارٹ فال کو کائونٹر کر نے کے لئے ہی حکومت منی بجٹ لانے کا پلان بنا رہی ہے۔ تاکہ مختلف سیکٹرز اور اشیا پر مزید ٹیکس لگا کر اضافی آمدنی سے خسارے کو کم کیا جاسکے۔ جس کے تحت مزید ٹیکس تو لگائے جائیں گے، تاہم ایکسپورٹ کے لئے ڈیوٹی کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ قدم اٹھانے کا اس وقت تک فائدہ نہیں جب تک ملکی ایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہوجاتا۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ایکسپورٹ میں اضافے کے بجائے کمی ہوئی ہے اور امپورٹ میں کمی لانے کی کوششیں بھی فی الحال کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ ایکسپورٹ میں اضافہ ہوجاتا تو محض چند ماہ میں روپے کی قدر میں ہونے والی 30 فیصد کمی کو کس حد تک کور کیا جا سکتا تھا۔ ذرائع کے مطابق سگریٹ، پان، میک اپ کے سامان اور درآمدی گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافے کے علاوہ موبائل فون صارفین کو سپریم کورٹ کی جانب سے ملنے والی رعایت بھی ختم کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ سو روپے کا اسکریچ کارڈ لوڈ کرنے پر پہلے 25 روپے کاٹے جاتے تھے۔ اس وقت صارفین کو پورے سو روپے کا لوڈ مل رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق موبائل صارفین سے یہ رعایت واپس لینے کے ساتھ ود ہولڈنگ ٹیکس لگانے کا معاملہ بھی زیر غور ہے۔ جبکہ فی لیٹر پیٹرول اور ڈیزل پر فکس سیلز ٹیکس کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا نیا دور جلد متوقع ہے اور بالآخر حکومت کو کڑی شرائط پر قرضہ لینا ہوگا۔ لہٰذا 2019ء میں ہوشربا مہنگائی کے لئے عوام تیار رہیں۔
ادھر اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ بے قابو ہوتی معیشت اور بیڈ گورنس کے ایشوز پر سیاسی و غیر سیاسی نجی محفلوں میں اب تنقید کا سلسلہ بڑھنے لگا ہے۔ چند روز پہلے اسی نوعیت کی ہونے والی ایک ’’گیٹ ٹوگیدرنگ ‘‘ میں جہاں اہم سابق اور موجودہ ذمہ داران موجود تھے۔ یہ معاملات کثرت سے زیر بحث آئے۔ ذرائع کے بقول یہ ایک نجی تقریب تھی۔ تاہم جب ایک جگہ بہت سے دماغوں کو جمع ہونے کا موقع ملا تو پھر معیشت کی دگرگوں حالت اور حکومت کی بیڈ گورنس کے معاملات پت بھی کھل کر بات کی گئی۔ شرکا میں سے اکثریت کا جوش و خروش وہ نہیں تھا، جو نئی حکومت کے آنے سے پہلے ان میں پی ٹی آئی کے حوالے سے پایا جاتا تھا۔ ذرائع کے مطابق بیشتر کے خیالات بہت سخت تھے اور بعض قدرے مایوس دکھائی دیتے تھے کہ ان کے خیال میں عمران خان کو وزیر اعظم بننے سے پہلے خیبر پختون کی وزارت اعلیٰ سنبھال کر کچھ تجربہ حاصل کر لینا چاہئے تھا۔ بجائے اس کے کہ بغیر تیاری کے ملک کی کمان سنبھال لی اور اب معیشت، سیاست، بیورو کریسی اور گورنس سمیت ہر شعبے میں افراتفری کا سامان ہے۔ یہ تذکرہ بھی ہوا کہ پی ٹی آئی وزرا اور رہنمائوں نے جس جلد بازی اور ناتجربہ کاری سے سندھ حکومت کے خلاف پکی پکائی کھیر الٹ دی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس بے ڈھنگی حکمت عملی سے الٹا حکومت کو بیک فٹ پر آنا پڑا اور پی پی قیادت سیاسی فائدہ لے گئی۔ ذرائع کے بقول گیدرنگ میں اس پر بھی اظہار خیال ہوتا رہا کہ اقتدار میں آنے سے پہلے پی ٹی آئی کے پاس کوئی منصوبہ بندی کیوں نہیں تھی؟ کس بنیاد پر سو روزہ پلان بنایا گیا؟ مناسب تیاری کیوں نہیں کی گئی؟ اسی طرح ملک کے سب سے بڑے صوبے کی کمان عثمان بزدار کے حوالے کئے جانے اور ان کی طرف سے کارکردگی نہ دکھائے جانے پر بھی شرکا میں مایوسی پائی گئی۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان کئی مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ عثمان بزدار کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عثمان بزدار کو گھر بھیجنا پڑے گا۔ اس حوالے سے دبائو بڑھ رہا ہے کہ ملک میں طاقت کے مرکز پنجاب کا نظام چلانے کے لئے کسی مضبوط وزیر اعلیٰ کو میدان میں اتارا جائے۔ ذرائع کے بقول صوبے کے لوگوں نے دس برس تک شہباز شریف کی شکل میں ایک متحرک وزیر اعلیٰ کو دیکھا ہے۔ لہٰذا جب وہ عثمان بزدار کا موازنہ شہباز شریف سے کرتے ہیں تو انہیں اور زیادہ مایوسی ہوتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More