ڈاکٹر ضیاألدین خان
[email protected]
مولانا پھر ایکشن میں ہیں۔ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے۔ جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں۔ مگر مولانا صورت نخچیر (نخ چیر)۔ زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑا رہے ہیں۔ سسٹم سے باہر رہنا انہیں سوہان روح ہے۔ اس لیے حکومت گرانے کے لیے کوئی موقع۔ کوئی دن۔ کوئی ساعت۔ کوئی لمحہ۔ کوئی ثانیہ جانے نہیں دیتے۔ کبھی زرداری۔ کبھی لاہوری۔ کبھی اسفندیاری۔ مسلسل گردش میں رہتے ہیں۔ اللہ ان پر رحم فرمائے۔ اور سیاست سے ان کی رغبت کچھ کم کرے۔ گلدستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھنے اور کھولنے میں وہ جتنے ماہر ہیں۔ اک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کے اس سے کہیں زیادہ قائل۔ کاش یہ مہارت دنیا سے زیادہ دین کمانے کے کام آتی۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی بڑھانے میں صرف ہوتی۔ دینی مدارس کا سوفٹ امیج اجاگر کرنے میں خرچ ہوتی۔ اور دین دنیا کے بڑوں کے درمیان پل بنانے میں استعمال ہوتی۔ موصوف ان دنوں کوشش میں ہیں کہ پیپلز پارٹی کی کڑھائی میں نواز لیگ کا تیل ڈالیں اور اے این پی کے کوئلے سلگا کر اپنے پکوڑے تل لیں۔ مشکل یہ ہے کہ نواز لیگ اپنا کاندھا دینے کے لیے تیار نہیں۔ زرداری بھی مولانا کی آنیاں جانیاں محض دبائو ڈالنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد سندھ حکومت بچانا تھا۔ سو بچالی۔ اب جیل یاترا بھی کرنی پڑے تو کیا غم ہے۔ مظلوم بن کر ہی نکلیں گے۔ ایک وقت تھا جب بنانے والوں نے انہیں ٹین پرسنٹ بنایا۔ پھر مرد حر کا خطاب دلوایا۔ اب کرپشن کا بادشاہ کہہ رہے ہیں۔ کہاں یہ کہاں یہ مقام۔ اللہ اللہ۔ انسان بھی کیا چیز ہے؟ مٹی کا کھلونا۔ کاریگر بناتا ہے۔ توڑتا ہے۔ نئی مٹی شامل کرتا ہے۔ پھر سے بناتا ہے۔ اور کھلونے پر ہی کیا موقوف۔ دنیا میں کسی کی کبھی یکساں نہیں گزری۔ اس لیے زرداری کو بھی پتہ ہے اور کاریگروں کو بھی۔ بس موقعے موقعے کی بات ہے۔ صورت یہ ہے کہ زرداری نے سینیٹ کا چیئرمین نواز لیگ کی مرضی کے مطابق لانے کی پیشکش کی تھی۔ پر نواز شریف نہیں مانے۔ وہ ایک سوراخ سے چوتھی بار ڈسے جانے کے لیے تیار نہیں۔ ویسے بھی ان کے معاملات براہ راست سیدھے ہو رہے ہیں۔ انہیں کیا پڑی کہ پرائی اوکھلی میں سر دیں۔ من قبلہ راست کردم بر سمت کج کلاہے۔ انہیں یہ بھی احساس ہے کہ زرداری کا رویہ گزشتہ چند ماہ کے دوران بہت تحقیر آمیز اور سخت رہا۔ حالانکہ انہیں مستقبل کے لیے ایک کھڑکی کھلی چھوڑنی چاہئے تھی۔ لیکن نوائے طائرانِ آسمان سن کر انہوں نے دریچہ تو بڑی بات ہے روزن تک بند کر دیئے۔ کوئی رخنہ تک نہ چھوڑا۔ حالانکہ پارٹی کے کئی سینئر رہنما اس سے متفق نہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پڑوسی کے گھر آگ لگ جائے تو بجھانا ضروری ہے۔ تاکہ اپنے دروازے بچائے جا سکیں۔ لیکن زرداری نہیں مانے۔ چنانچہ وہی ہوا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ تو قسمت کی ماری حکومت کی بے تابی تھی۔ جس نے سندھ حکومت کی تبدیلی کا طبل اس زور سے بجایا کہ مفاہمت کی شاخ پر بیٹھے سارے پرندے اڑ گئے۔ اور زرداری اپنی اصل کیفیت میں لوٹ آئے۔ اب وہ ہیں اور دھواں دھار تقریریں۔ منم گرزد میدان و افراسیاب۔ کوشش ہے کہ سندھ کو اتنا گرم کر دیں کہ ان کی گرفتاری مشکل سے ناممکن ہو جائے۔ سچی بات ہے کہ دارالحکومت کے بڑوں کو بھی یہی تشویش ہے۔ سب سے گرم سوال جو ان دنوں اقتدار کی راہداریوں میں پوچھا جاتا ہے۔ یہ ہے کہ زرداری کی گرفتاری سے سندھ سے کوئی بڑا ردعمل آئے گا یا نہیں؟ یہ سوال ہر اس شخص سے پوچھا جاتا ہے۔ جس کا تعلق سندھ سے ہے یا جو سندھ کے معاملات پر نظر رکھتا ہے۔ ان میں غافل بھی ہیں۔ عاقل بھی ہیں۔ ہشیار بھی ہیں۔ لیکن جواب تقسیم ہو کر آتا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اور سندھ کے عوام زرداری کے لیے باہر نہیں نکلیں گے۔ بلاول ہوتے تو اور بات تھی۔ بعض کا کہنا ہے کہ ہر گزرتا دن زرداری کی گرفتاری مشکل بنا رہا ہے۔ کیونکہ وہ سندھ کے درجۂ حرارت کو نقطۂ پگھلائو سے نقطۂ ابال تک لے جا رہے ہیں۔ جگہ جگہ جلسے کر رہے ہیں۔ کارکنوں کو متحرک کر رہے ہیں۔ اور بلاول کو مزاحمت کے میدان میں اتار رہے ہیں۔ یہ تو سپریم کورٹ نے گزشتہ روز بلاول کا نام ایگزٹ کنٹرول سے نکالنے کا حکم دے دیا۔ ورنہ اس نکتے پر تو سندھ میں گرما گرمی پیدا کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کامیاب مہم چلا رہی تھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ زرداری گرفتار ہوئے تو مظلومیت کا پرچم بلاول کے ہاتھ میں ہو گا۔ ماں قتل کر دی گئی۔ باپ جیل بھیج دیا گیا۔ لڑکا تنہا رہ گیا۔ یہ وہ منظرنامہ ہو گا جس میں بلاول سندھ کے دورے کریں گے۔ اور ہر جگہ عوام انہیں ہمدردی دیں گے۔ بلاول کے ساتھ ان کی بہنیں بھی ہو سکتی ہیں۔ اگر ضرورت پڑی۔ یہ بھی یاد رہے کہ سندھ سے سی پیک کے اہم راستے گزرتے ہیں اور اہم ترین بندرگاہ یہاں واقع ہے۔ صوبے میں بے چینی بڑھی یا سیاسی انتشار پھیلا تو اس کا اثر سی پیک پر بھی پڑے گا۔ اور بندرگاہ پر بھی۔ اور امریکہ۔ بھارت اور دیگر مخالف ملک اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ زرداری کو گرفتار نہ کریں یا سندھ میں کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف کارروائی نہ کریں۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ عجلت میں کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں۔ جو واپس لینا پڑے۔ حکومت کے لیے تو خیر اس میں کوئی شرم نہیں۔ لیکن ریاست کی محافظ قوتوں کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ روز بروز کمزور ہوتی معیشت کو سنبھالنے کے لیے سطح آب پرسکون کی ضرورت ہے۔ ہلچل مچی تو معیشت کی حالت مزید ابتر ہو جائے گی۔ پھر کون سی ہلچل کب طوفان میں بدل جائے۔ اس کا اندازہ کسی کو نہیں ہوگا۔ فی الحال کرپشن کرنے والے کہیں جا رہے ہیں نہ کرپشن کے خلاف اقدامات کا عزم کہیں ٹوٹ رہا ہے۔ تھوڑی دیر سویر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم تو یہاں تک کہتے ہیں کہ گزشتہ کرپشن سے وصولی ہو سکے یا نہیں۔ کم از کم آئندہ کے لیے یہ بندوبست ہو جائے کہ کرپشن نہ ہو۔ گزشتہ را صلوٰۃ۔ آئندہ را احتیاط کریں۔ اور کچھ نہ ہو مستقبل کے منصوبوں کے لیے ہی کوئی سرخ لکیر کھینچ دیں۔ تاکہ معیشت کا پہیہ دوبارہ چل سکے۔ فی الحال تو وہ بالکل ساکت ہے۔ اسی لیے اب یہ کرپٹ لوگوں کا مسئلہ نہیں رہا۔ عام آدمی کا مسئلہ بھی بن گیا ہے۔ اور معیشت کا رکا ہوا پہیہ نرمی۔ اعتماد اور درگزر سے ہی چلے گا۔ ورنہ پوری کے چکر میں آدھی سے بھی جائیں گے۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ حکومت خزانہ بھر لے یا جیلیں بھر لے۔ دونوں ساتھ نہیں بھر سکتی۔ خزانہ بھرنا چاہتی ہے تو پکڑ دھکڑ کا عوامی بازار بند کر دے۔ ایف آئی اے۔ ایف بی آر۔ نیب اور جنے کیا کیا۔ سب کو عام سطح پر کارروائیوں سے روک دے۔ کاروباری طبقہ ان کے ہاتھوں پریشان ہے۔ میڈیا کی چیختی چلاتی سرخیاں اس کا کلیجہ دہلا دیتی ہیں۔ وہ جائز کاروبار سے بھی ہاتھ اٹھا رہا ہے۔ یقین نہ آئے تو کسی دکاندار۔ تاجر۔ صنعت کار۔ پیٹرول پمپ والے سے پوچھ لیں۔ ہر جگہ دکھوں بھری کہانی ملے گی۔ پھر بھی حکومت کا خیال ہے کہ سختی سے رس نکال سکتی ہے۔ تو نکال لے۔ ایف بی آر نے گزشتہ سہ ماہی وصولی کے ٹارگٹ سے 170 ارب روپے کم وصولے ہیں۔ کیا عاقل کے لیے اتنا سبق کافی نہیں۔ بھائی میرے جب دھندا ہی نہیں ہو گا تو کوئی ٹیکس کیوں دے گا؟ تلوں سے تیل تب نکلتا ہے۔ جب ان کا پیٹ بھرا ہو۔ خالی پیٹ تو لوگ اولیا کی نہیں سنتے۔ آپ کو کیا خاطر میں لائیں گے۔ اور اگر آپ کو جیل بھرنی ہے تو معیشت کی بہتری کی امید چھوڑ دیں۔ پھر مانگے تانگے کے قرضوں سے کام چلائیں۔ لیکن پہیہ پھر بھی نہیں گھومے گا۔ ہمیں حیرت ہے کہ اتنی موٹی بات حکومت کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔ جسے سڑک پر گنے کا رس بیچنے والا دکاندار بھی جانتا ہے۔ ویسے بھی ایک بار خزانہ بھر جائے۔ اور آپ پیروں پر کھڑے ہو جائیں۔ تو باری باری سب کرپٹ لوگوں کو تندور میں ڈال دیں۔ کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوگا۔ لیکن شکار سے پہلے ڈھول تاشے پیٹنے اور مال مویشی سے بھرا جنگل خالی کرانے سے تو معیشت نہیں سنبھلتی۔ یقین نہیں تو سنبھال کے دیکھ لیں۔ ٭
٭٭٭٭٭