مشتری ہوشیار باش!

0

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کو پاکستان کا اگلا چیف جسٹس بنانے کی منظوری دے دی ہے۔ وزارت قانون نے ان کے تقرر کا نوٹی فکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔ موجودہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سترہ جنوری کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اس کے اگلے روز چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ وہ سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج ہیں اور بیس دسمبر 2019ء تک پاکستان کے چیف جسٹس رہیں گے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ ہمیشہ اونچ نیچ کا شکار رہی۔ آزادی کے بعد ملک کے پہلے چیف جسٹس سر عبد الرشید مقرر ہوئے تھے، اس وقت یہ منصب فیڈرل چیف جسٹس کہلاتا تھا۔ انصاف کے نام پر دھبا بننے والے پاکستان کے دو ججوں جسٹس منیر اور جسٹس عبد الحمید ڈوگر کا نام تاریخ کے سیاہ اوراق میں محفوظ ہے، جبکہ حالیہ تاریخ میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور موجودہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے جرأت مندانہ فیصلوں، از خود نوٹسوں اور فکر انگریز ریمارکس سے انصاف کے نئے باب رقم کئے۔ سترہ دسمبر کو ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے دور میں انصاف کا بول بالا کرنے کے علاوہ ملک بھر میں دورے کرکے قومی اداروں میں کرپشن، نااہلی اور فرض شناسی کے خلاف عملاً جہاد کیا، جس کی وجہ سے وہ پاکستان کی تاریخ میں نمایاں حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ سے انصاف کے حلقوں اور اہل وطن نے اور بھی زیادہ امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا بھی یہی خیال ہے کہ انہوں نے ظلم اور ناانصافی کے خلاف قانون اور عوام کی بالادستی کا جو کام شروع کیا ہے، نئے چیف جسٹس اسے یقینا آگے بڑھائیں گے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹھارہ فروری 2010ء کو سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے کام شروع کیا تھا۔ انہوں نے 2012ء میں پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کی سزا دینے اور عہدے سے برطرف کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ پھر نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس میں مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا تو وہ ان دو ججوں میں سے ایک تھے، جنہوں نے ان کو فوراً ہی نااہل قرار دینے کا خصوصی نوٹ لکھا اور انہیں ’’گاڈ فادر‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ موجودہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی انصاف پسندی اور قومی مجرموں پر ہیبت کا یہ عالم ہے کہ بہت سے ملزموں نے ان کے ریٹائرمنٹ تک ضمانتیں کرا رکھی ہیں۔ اس امید پر کہ شاید ان کے جانے پر انہیں کوئی ریلیف مل جائے۔ تاہم اندازہ ہے کہ ان کی توقعات نقش برآب ثابت ہوں گی، کیونکہ نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اپنی تعلیم و تربیت، تجربے، اسلامی معلومات اور حب الوطنی کے باعث وطن دشمنوں کیلئے زیادہ آہنی ہاتھ استعمال کریں گے۔ سابقہ و موجودہ حکمران طبقے، بیورو کریسی، مختلف حکومتی اداروں اور کاروباری شخصیات میں سے جو مجرم اب تک بچے ہوئے ہیں، وہ بھی کیفر کردار کو پہنچ کر رہیں گے۔ ادھر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اصلاح معاشرہ کی مہم چلائیں گے۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تحریک انصاف کی جو حکومت قائم ہے، وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں اس کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی بڑی پیٹھ ٹھونکی تھی، جبکہ اتوار کو سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں پاکستان کڈنی اینڈ ٹرانسپلانٹ یونٹ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران دو رکنی بنچ کے سربراہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے یہ کہہ کر پول کھول دیا کہ پنجاب حکومت میں نااہلی اور نکما پن اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ اس سے حکومت کے معاملات نہیں چلائے جا رہے۔ فاضل چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ صوبائی حکومت نے بائیس ارب روپے لگا دیئے، لیکن یہ سینٹر پرائیویٹ لوگوں کے پاس چلا گیا۔ اسے واپس آنا چاہئے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے بارے میں بعض حلقوں نے یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی تھی کہ وہ وزیراعظم عمران خان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، جبکہ معروضی حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر شخص، ہر ادارے اور ہر کیس کو صرف اور صرف قانون کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جہاں کسی کا کوئی کام قابل ستائش ہو، اس کی تعریف کرنے میں کنجوسی نہیں کرتے، جبکہ بے ایمان، بدعنوان، کام چور اور نااہل لوگوں کی سرزنش کرنے میں بھی ذرا نہیں ہچکچاتے۔ پنجاب حکومت کے بارے میں فاضل چیف جسٹس کے تازہ ریمارکس دراصل تحریک انصاف کی کل کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار ہے، جو پارٹی ملک کے سب سے بڑے صوبے کو نہ سنبھال سکے، جہاں اس کی اپنی حکومت ہے وہ پورے ملک میں کیا کارکردگی دکھا سکتی ہے۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد پر تحریک انصاف بڑا ناز کرتی ہے۔ ان سے چیف جسٹس نے سوال کیا کہ جگر کی پیوند کاری کے آپریشن کا کیا بنا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ فکر نہ کریں، اس پر بھی کام ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ فکر تو آپ کو کرنی ہے، لیکن آپ کچھ نہیں کر رہی ہیں۔ ہر سماعت پر آپ اور صوبائی حکومت زبانی جمع خرچ کرنے لگتی ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے ’’امت‘‘ کے ان کالموں میں حکومتوں کی جانب سے ’’گا، گی، گے‘‘ کی گردان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پہلا آپریشن کرنے کی حتمی تاریخ دینی تھی، لیکن آپ آج بھی ’’گا، گی، گے‘‘ کر رہی ہیں۔ ہم اس کیس میں پنجاب حکومت کی نااہلی کو تحریری حکم کا حصہ بنا رہے ہیں۔ کیس کی سماعت فروری کے آخری ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ مذموم عزائم والے افراد کو ساتھ لے کر چلنا ہی شاید پنجاب حکومت کی پالیسی ہے۔ کیس چونکہ پنجاب کے کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ سے متعلق ہے، اس لئے فاضل چیف جسٹس نے صرف صوبائی حکومت کی پالیسی کا حوالہ دیا، ورنہ مذموم مقاصد والے افراد کی ایک بھیڑ ہے، جو تحریک انصاف کی حکومت میں شامل ہوکر ملک کے معاملات چلا رہی ہے۔ لیکن یہ صورتحال زیادہ عرصے تک برقرار رہنے والی نہیں۔ اگلے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا دور موجودہ اور سابقہ حکمرانوں اور نااہل و جرائم پیشہ افراد کے لئے زیادہ سخت ہوگا، اس لئے مال و مناصب کے سودے کرنے والوں کو ’’مشتری ہوشیار باش‘‘ کے اصول پر ابھی سے محتاط ہو جانا چاہئے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More