جب عبد الملک دربار میں پہنچے تو ان کے والد سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ نے ان سے پوچھا ان اموال کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے، جو ہمارے چچا کے بیٹوں نے لوگوں سے چھینے ہیں؟ کیوں کہ مظلوم لوگ اس وقت اپنا حق وصول کرنے کے لیے میرے پاس آئے ہوئے ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ چھینے ہوئے مال پر ان کا ہی حق ہے۔
بیٹے نے جواب دیا: ’’ابا جان! ان مظلوموں کی فریاد رسی کرتے ہوئے ان کا مال واپس لوٹانا آپ کا فرض ہے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ بھی اس ظلم میں برابر کے شریک سمجھے جائیں گے۔‘‘ (کیوں کہ آپ کو اس ظلم کا علم ہو چکا ہے اور آپ اس ظلم کے دور کرنے کی قدرت اور طاقت بھی رکھتے ہیں، لہٰذا اس سے نجات آپ کا فرض ہے)۔
یہ بات سن کر امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا چہرہ کھل اٹھا، دلی اطمینان ملا اور وہ غم ختم ہوا، جس نے آپؒ کو نڈھال کر رکھا تھا اور بے چینی والی کیفیت صحیح مشورہ ملنے پر ختم ہوگئی۔
خاندان فاروق اعظمؓ کے اس عظیم سعادت مند بیٹھے نے دمشق کے پر رونق بازار، لہلہاتے ہوئے تر وتازہ باغات، دل پسند دل کش ٹھنڈے سایہ دار درخت اور بل کھاتے ہوئی رواں دواں ندیوں کے دل فریب مناظر کو چھوڑ کر پہاڑی سرحدی علاقے کو اپنے رہائش کے لیے منتخب کیا، تاکہ ہر دم ہر گھڑی حالت جہاد میں رہنے کی سعادتیں حاصل ہوں۔
امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو اس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ ان کا بیٹا، عقل مند، لائق، متقی، باادب اور پرہیز گار ہے، پھر بھی انہیں اندیشہ لاحق رہتا کہ کہیں ان کا بیٹا شیطان کے داؤ میں نہ آجائے، وہ جوانی کی بے راہ روی سے بہت خوف زدہ تھے اور اپنے فرزند کے متعلق ہر طرح کی معلومات رکھتے اور کبھی غافل نہ ہوتے تھے۔
عمر بن عبدالعزیزؒ کی بیٹے کو نصیحت:
امیر المؤمنیں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے وزیر، قاضی اور مشیر جناب میمون بن مہرانؒ بیاں کرتے ہیں:
میں ایک دن خلیفہ عمر بن عبد العزیزؒ کے پاس گیا، وہ اپنے بیٹے عبد الملک کو خط لکھ رہے تھے، جس میں نصیحت، رہنمائی، تنبیہ اور بشارت پر مبنی جملے لکھے۔
اس خط میں انہوں نے خدا تعالی کی تعریف اور حضور اکرمؐ پر درود شریف کے بعد لکھا کہ بیٹا! میری بات کو سمجھنے اور اس کو یاد رکھنے کے زیادہ اہل تم ہی ہو بہ نسبت اوروں کے۔ تم سوچو حق سبحانہ وتعالیٰ نے ہم پہ کتنے کرم کئے ہیں، ہر چھوٹے بڑے کام میں اسی نے ہم پر نے انتہا احسانات کئے، بیٹا! حق تعالیٰ کے اس فضل کو یاد کرو جو اس نے تم پر اور تمہارے والدین پر کیا ہے، لہٰذا خدا تعالیٰ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرو اور تکبر، فخر و غرور سے بہت بچنا کہ بلاشبہ یہ شیطانی اوصاف ہیں اور شیطان مؤمنوں کا ازلی دشمن ہے۔‘‘
’’اگر اس تکبر کی وجہ سے کوئی ایسا کام تم نے کیا جو مجھے پسند نہیں تو میں ایسی سزا دوں گا جو تم کو پسند نہیں ہوگی۔‘‘
پھر امیر المؤمنین نے میمون وزیر کی طرف متوجہ ہوکر ایک بڑی عجیب بات فرمائی جو ہر والد کو یاد رکھنے کی ہے۔ فرمایا:
اے میمون! مجھے میرے بیٹے عبد الملک کے ساتھ بہت ہی محبت ہے، مجھے یہ اندیشہ ہے کہ میں اسی محبت میں اتنا اندھا نہ ہو جاؤں کہ اس کی بری باتوں پر بھی پردہ ڈالتا جاؤں اور اس کی تربیت سے غافل ہو جاؤں، جس طرح اکثر والدین کی محبت ان کو بچوں کے عیوب پر سمجھانے اور ٹوکنے سے غافل کردیتی ہے، جس سے اولاد کے اندر بے شمار عیوب پیدا ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا تم ابھی دمشق جاؤ اور چپکے حالات معلوم کرتے رہو، کہیں اس نوجوان میں غرور و تکبر کی بیماری تو پیدا نہیں ہورہی۔ کیوں کہ وہ ابھی کم عمر ہے، شیطان اس پر قابو نہ پالے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post