معارف و مسائل
آگے اس مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کھیتی اور دوسری نباتات، پھول پھلواریاں جب ہری بھری ہوتی ہیں تو سب دیکھنے والے خصوصاً کفار بڑے خوش اور مگن نظر آتے ہیں، مگر آخر کار پھر وہ خشک ہونا شروع ہوتی ہیں، پہلے زرد پیلی پڑ جاتی ہیں، پھر بالکل خشک ہو کر چورا چورا ہو جاتی ہیں، یہی مثال انسان کی ہے کہ شروع میں ترو تازہ، حسین خوبصورت ہوتا ہے، بچپن سے جوانی تک کے مراحل اسی حال میں طے کرتا ہے، مگر آخر کار بڑھاپا آ جاتا ہے، جو آہستہ آہستہ بدن کی تازگی اور حسن و جمال سب ختم کر دیتا ہے اور بالآخر مر کر مٹی ہو جاتا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی اور زوال پذیر ہونے کا بیان فرمانے کے بعد پھر اصل مقصود آخرت کی فکر کی طرف توجہ دلانے کے لئے آخرت کے حال کا ذکر فرمایا۔
(آیت) وَفی الْاٰخِرَۃِ … یعنی آخرت میں انسان ان دو حالوں میں سے کسی ایک میں ضرور پہنچے گا، ایک حال کفار کا ہے، ان کے لئے عذاب شدید ہے، دوسرا حال مومنین کا ہے، ان کے لئے حق تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور رحمت ہے۔
یہاں عذاب کا ذکر پہلے کیا گیا، کیونکہ دنیا میں مست و مغرور ہونا جو پہلی آیات میں مذکور ہے، اس کا نتیجہ بھی عذاب شدید ہے اور عذاب شدید کے مقابلے میں دو چیزیں ارشاد فرمائیں: مغفرت اور رضوان۔ جس میں اشارہ ہے کہ گناہوں اور خطاؤں کی معافی ایک نعمت ہے، جس کے نتیجے میں آدمی عذاب سے بچ جاتا ہے، مگر یہاں صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ عذاب سے بچ کر پھر جنت کی دائمی نعمتوں سے بھی سرفراز ہوتا ہے، جس کا سبب رضوان یعنی حق تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔
اس کے بعد دنیا کی حقیقت کو ان مختصر الفاظ میں بیان فرمایا: (آیت) وَمَا الْحَیٰوۃُ … یعنی ان سب باتوں کو دیکھنے سمجھنے کے بعد ایک عاقل و بصیر انسان کے لئے اس کے سوا کوئی نتیجہ دنیا کے بارے میں نہیں رہ سکتا کہ وہ ایک دھوکے کا سرمایہ ہے، اصلی سرمایہ نہیں، جو آڑے وقت میں کام آ سکے، پھر آخرت کے عذاب و ثواب اور دنیا کی بے ثباتی بیان فرمانے کا لازمی اثر یہ ہونا چاہئے کہ انسان دنیا کی لذتوں میں منہمک نہ ہو، آخرت کی نعمتوں کی فکر زیادہ کرے، اس کا بیان اگلی آیات میں اس طرح آیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post