مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کو اکٹھا نہیں کرپائیں گے

0

نجم الحسن عارف
مولانا فضل الرحمان کے ذریعے اپوزیشن اتحاد کی کوششوں کو فوری طور پر کلی کامیابی ملنا مشکل ہے۔ ذرائع کے مطابق نواز لیگ اپوزیشن جماعتوں کو باہم قریب کرنے کی حامی ہے۔ میاں نواز شریف نے اس سلسلے میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو ہدایات بھی دے رکھی ہیں، جن کے نتیجے میں آئندہ دنوں لیگی صدر پیپلز پارٹی کی قیادت پر فائز سابق صدر آصف زرادری اور چیئرمین پی پی بلاول بھٹو کو اپنے چیمبر میں چائے پر بلانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ لیکن فی الحال صرف رابطوں اور ڈھیلی ڈھالی قربت کا اہتمام ہی پیش نظر ہے۔ ذرائع کے مطابق جیل میں بند نون لیگ کی اعلیٰ قیادت عمران حکومت کو دبائو میں رکھنے پر تو آمادہ ہے، لیکن اسے گرانے کا ’’گناہ‘‘ اپنے ذمے لینے کو تیار نہیں۔ ذرائع کے بقول میاں نواز شریف کی اس پس منظر میں ’’اپروچ‘‘ یہ ہے کہ عمران حکومت اپنی نااہلی کے بوجھ تلے دب کر ختم ہو۔ اپوزیشن کی تحریک یا کوششوں سے نہیں۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی حکومت کو ایک لمحے کیلئے بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان نے اپنی حالیہ ملاقاتوں میں بلوچستان حکومت کے خلاف کوششوں سے آغاز کرکے اپوزیشن اتحاد کی تجویز دی ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) میں قیادت کے قریب سمجھے جانے والے ایک اہم لیگی رہنما نے دوروز قبل ایک نجی نوعیت کی تقریب میں تازہ صورتحال کے بارے میں کہا ہے کہ ’’پی پی کے بارے میں نواز لیگ ابھی یہ نہیں سمجھتی کہ وہ آگے بڑھنے کے لئے سنجیدہ ہے یا نہیں۔ اگر سنجیدہ ہے تو اسے کم از کم چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے لئے آگے بڑھنا چاہئے۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کے حوالے سے اس وقت خود مسلم لیگ (ن) میں بھی رائے تقسیم ہو چکی ہے۔ سینیٹر راجہ ظفرالحق اور سینیٹر مشاہداللہ کی رائے بھی چیئرمین سینیٹ کے بارے میں تبدیل ہوچکی ہے۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ کو ایم ایم اے کے ذرائع نے بتایا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کرنے کیلئے اپنے مشن کو ایم ایم اے میں شامل جماعتوں کے ساتھ بھی شیئر نہیں کیا ہے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ان رابطوں کے بارے میں مولانا فضل الرحمان نے پہلے بات کی تھی نہ اپنی کوششیں شروع کرنے کے بعد کوئی ایسی بات کی ہے۔ اس لئے متحدہ مجلس عمل ایک دینی اتحاد کے طور پر ابھی مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ایک صفحے پر نہیں۔ ان ذرائع کے بقول جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے حالیہ اجلاس میں بھی مولانا فضل الرحمان کی ان کوششوں کے بارے میں کوئی خاص بات نہیں ہوئی ہے۔
ادھر نواز لیگ کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ میاں نواز شریف کی ’’اپروچ‘‘ واضح ہے کہ عمران خان کی ناکامی، جو ابھی سے عوام کو بھی نظر آنا شروع ہوگئی ہے، اس کے بعد فطری طور پر مسلم لیگ (ن) ہی کی باری ہوگی۔ اس لئے کسی وسیع البنیاد اپوزیشن اتحاد کی صورت میں نواز لیگ کی اگلی باری میں دوسری جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی اور دینی جماعتیں زیادہ حصے کا تقاضا کر سکتی ہیں۔ نیز عمران خان کی حکومت ختم ہونے کی صورت میں انہیں مظلومیت کا تشخص مل سکتا ہے کہ انہیں اپوزیشن جماعتوں نے کام نہیں کرنے دیا۔ نتیجتاً پی ٹی آئی کے ساتھ وابستہ یوتھ زیادہ جارحانہ انداز میں متحرک ہو سکتی ہے۔ اس لئے عمران خان کو نااہل حکمران کے طور پر ہی ناکام ہونے کا موقع دینا چاہئے۔ نون لیگی ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف اپوزیشن کے اس اتحاد کی صورت کو اپنی متوقع جانشین مریم نواز کے سیاسی مستقبل کیلئے بھی مفید خیال نہیں کرتے کہ اپوزیشن کے بڑے بڑے قائدین میں مریم نواز پس منظر میں جا سکتی ہیں۔ اس لئے نواز لیگ فی الوقت نیب کے شکنجے سے نکلنے اور کیسز سے جان چھڑانے کو ترجیح رکھتی ہے۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو نواز لیگ مکمل انکار بھی نہیں کرے گی، لیکن فوری طور پر مکمل ہاں بھی نہیں کرے گی۔ اگر اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بنا بھی تو اس میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ایک روز قبل ہی کہہ چکے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کی سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات محض معمول کی ملاقات تھی۔ نیز بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا ہے کہ پی پی پی تنہا بھی اپوزیشن بنچوں پر کردار ادا کرسکتی ہے۔ ذرائع کے بقول پیپلز پارٹی نہیں چاہتی کہ حکومتوں کی توڑ پھوڑ کے عمل کا خود آغاز کرنے میں آگے آئے اور کرپشن الزامات کی زد میں آئی اپنی سندھ حکومت کا مستقبل خطرے میں ڈالے۔ پی پی اور نواز لیگ کی قیادتیں سمجھتی ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کچھ پانے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ جبکہ پی پی اور نواز لیگ کو اپنے موجودہ یا امکانی حصے میں سے بھی کچھ سے اتحاد کی صورت میں دستبردار ہونا پڑ سکتا ہے۔ جو دونوں بڑی جماعتوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی اس ’’شٹل سروس‘‘ سے دونوں پارٹیاں فائدہ تو اٹھانا چاہتی ہیں، لیکن اس کے بدلے میں کچھ دینے کو تیار نہیں۔ اسی وجہ سے سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے خلاف گھیرا تنگ ہونے کے ماحول میں مولانا فضل الرحمان کو یکے بعد دو مرتبہ ملنے کا اہتماماً موقع دیا اور انہیں استعمال کرتے ہوئے عدالتوں سے کسی قدر ریلیف کی اپنے تئیں کوشش کی۔ جبکہ اگلے ہی روز بلاول بھٹو سے بھی بیان دلوادیا۔ مولانا فضل الرحمان کی اس تجویز کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی گئی ہے کہ فی الحال کم از کم بلوچستان کی صوبائی حکومت کے خاتمے کیلئے اپوزیشن جماعتیں فوری طور پر اکٹھی ہوں ۔ اسے بھی پی پی کی قیادت نے فوری طور پر قبول نہیں کیا ہے۔ جبکہ نواز لیگ کے ایک ذریعے نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اگر اپوزیشن جماعتوں کو ایک ایجنڈے اور حکمت عملی کے لئے متحد کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اپوزیشن کی اس مجوزہ وسیع البنیاد اتحاد کیلئے سربراہی کے طلب گار ہوں گے۔ یہ نواز لیگ کے لئے بھی قبول کرنا ایسے حالات میں آسان نہیں ہو سکتا کہ عمران حکومت اپنی نااہلی کے بوجھ تلے دب رہی ہے اور نواز لیگ کا دور عوام کو یاد آنے لگا ہے۔ اس لئے نواز لیگ کا فوری طور پر مولانا فضل الرحمان کو ایسا ریسپانس ملنا مشکل ہے جو فوری اپوزیشن اتحاد پر منتج ہو۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More