عباس ثاقب
ڈوگراں والا لگ بھگ ڈیڑھ سوکچے پکے گھروں پر مشتمل اچھا خاصا بڑا گاؤں ثابت ہوا۔ ان گھروں میں سے پچاس کے قریب ایک دوسرے کے پاس بے ترتیبی سے بنے ہوئے، جبکہ باقی کم زیادہ فاصلے سے لگ بھگ ایک میل کے دائرے میں بکھرے ہوئے تھے۔ راستہ پوچھنے پر پہلے ہی گاؤں والے نے ایک تنگ نیم پختہ راستے پر سیدھا جانے کی ہدایت کی۔ لگ بھگ تین فرلانگ فاصلہ طے کرنے پر ہمیں مخصوص دیہا تی طرز کی دو منزلہ نیم پختہ حویلی دکھائی دی، جس کے سامنے ایک کنال کے قریب کھلا احاطہ تھا، جس کے ایک طرف بھینسوں کا بڑا سا باڑا دکھائی دیا۔ جبکہ دوسری طرف کئی گودام نما کچے کمرے بنے ہوئے تھے۔ ایک طرف ایک ٹریکٹر کھڑا نظر آیا۔ اس کے ساتھ ایک خستہ حال سی پک اپ گاڑی بھی موجود تھی۔ پہلی نظر میں اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ پک اپ چلنے کے قابل بھی تھی یا محض تبرکاً وہاں موجود ہے۔
ہماری شان دار گاڑی حویلی کے سامنے پہنچ کر رکی تو احاطے میں ہلچل سی مچ گئی۔ حلیے سے معمولی کارندے دکھائی دینے والے تین افراد مختلف حصوں سے آکر گاڑی کے ارد گرد کھڑے ہوگئے۔ ان کی نظروں میں سوالات نمایاں تھے۔ ظہیر گاڑی سے اترا اور پھر میری طرف والا دروازہ کھول کر انتہائی احترام سے اترنے کا اشارہ کیا۔ میں گردن اکڑائے، چہرے پر رعونت سجائے باہر نکلا اور نپے تلے قدموں سے چل کر اپنی گاڑی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
اس دوران میں میری نظریں ان تینوں میں سے مخاطب کیے جانے کے قابل شخص کا انتخاب کر چکی تھیں۔ میں نے اشارے سے اسے قریب بلایا۔ قدرے ہچکچاہٹ کے ساتھ اس نے میرے خاموش حکم کی تعمیل کی۔ میں نے گرج دار آواز اور ہریانوی زبان میں سوال کیا۔ ’’یہ شکتی ببر کا ڈیرہ ہے؟‘‘۔ پھر فوراً ہی اس کی بات سنے بغیر ارد گرد نظر دوڑائی اور حقارت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’میں نے تو سنا تھا وہ اچھا بڑا جاگیردار ہے۔ یہاں کی حالت تو کچھ اور ہی بتا رہی ہے۔ وہ سورما شکتی ببر ہے کہاں؟‘‘۔
میری بات سن کر اس نے مرعوب ہوکر کہا۔ ’’صوبیدار جی تو وصولی کے لیے گاؤں گئے ہوئے ہیں۔ آپ حکم کریں تو ابھی سائیکل پر جاکر انہیں بلوا لاتا ہوں۔ بس دس منٹ لگیں گے‘‘۔
میں نے تقریباً ڈپٹتے ہوئے پوچھا۔ ’’نام کیا ہے تیرا؟‘‘۔
اس نے لگ بھگ سہم کرکہا۔ ’’جی، ستناما… میر ا مطلب ہے ستنام سنگھ !‘‘۔
میں نے اپنے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔ ’’میرا وقت بہت قیمتی ہے۔ سائیکل چھوڑو، میری گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ جاؤ اور شکتی ببر کو ڈھونڈ کر لاؤ۔ اسے بتانا کہ نارائن گڑھ سے کنور مہندر سنگھ بھلّا ایک ضروری سے کام سے ملنے آئے ہیں۔ فوراً پہنچو!‘‘۔
اس نے بلند آواز سے میرا نام دہرایا اور پھر میرے حکم کی تعمیل میں گاڑی کا اگلا دروازہ کھول کر ظہیر کے پہلو میں بیٹھنے لگا۔ میں نے اسے ایک بار مخاطب کیا۔ ’’اوئے ستنامے… وہ تمہارا صوبیدار کس سواری پر ڈوگراں والا گیا ہے؟‘‘۔
اس نے جلدی سے کہا۔ ’’موٹر سائیکل پر کنور جی۔ جس پر میں کپورتھلے دودھ پہنچاتا ہوں‘‘۔
میں نے بدستور تحکم بھرے لہجے میں کہا۔ ’’اسے تم گاڑی میں بھیج دینا اور موٹر سائیکل پر تم واپس آجانا۔ لیکن ذرا جلدی!‘‘۔
اس نے زور زور سے ہاں میں گردن ہلائی اور اس کے ساتھ ہی ظہیر نے گاڑی واپسی کے راستے پر موڑ لی۔ ان کے رخصت ہونے پر میں بیش قیمت چھڑی ہاتھ میں تھام کر لہراتے ہوئے گہری نظروں سے آس پاس کا مزید جائزہ لینے لگا۔ حویلی اور ملحقہ ذیلی عمارتوں کے علاوہ چاروں طرف کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ جنہیں ایک چھوٹی نہر سیراب کرتی تھی۔ حویلی کی ساخت مناسب تھی۔ تاہم عمارت کو مرمت کی ضرورت تھی۔
اسی اثنا میں ایک اور کارندے نے ہمت یکجا کرکے مجھے بیٹھنے کے لیے مونڈھا فراہم کرنے کی پیشکش کی، جو میں نے بے نیازی سے ٹھکرا دی۔ شکتی ببر کی غیر موجودگی جو پہلے بری لگی تھی، اب فائدہ مند ثابت ہو رہی تھی۔ ظہیر راستے میں میری دولت، عزت اور اعلیٰ مرتبے کے قصے سناکر اس سابق صوبیدار کو راستے میں ہی اتنا مرعوب کر دے گا کہ یہاں پہنچنے پر اسے ذہنی طور پر فتح کرنے میں مجھے زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔
خوش قسمتی سے مجھے بہت زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ گاؤں کی طرف سے آنے والے راستے پر اپنی گاڑی کی جھلک دیکھتے ہی میں نے اپنی نظریں اس طرف سے ہٹالیں اور چھڑی لہراتے ہوئے نپے تلے قدموں سے ٹہلنے لگا۔ تاہم میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ ظہیر کو شکتی ببر مل گیا ہو۔
گاڑی میرے پاس آکر رکی تو میں نے سنجیدہ چہرے کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر نظر ڈالی۔ وہاں ستنام کے بجائے ڈھلکی ہوئی مونچھوں اور کھچڑی داڑھی والے پچپن سال کے لگ بھگ عمر والے شخص کو دیکھ کر میرا دل خوشی سے اچھل پڑا۔ تاہم میں نے چہرے پر بیزاری کی سی کیفیت برقرار رکھی۔ وہ شخص یقیناً شکتی ببر ہی تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭