قمرزمانی کے روپ میں مرد صحافی نے دلگیر سے ملاقات کی

0

ترتیب و پیشکش/ ڈاکٹر فرمان فتحپوری
ضیا عباس ہاشمی اور نیاز صاحب بتلایا کرتے تھے کہ شاہ دلگیر نہایت خوبرو، خوش قامت، صحت مند اور وجیہ آدمی تھے اور انہیں نقاد کی ادارت کے زمانے ہی سے یہ مغالطہ تھا کہ لڑکیاں ان کی رومان پرور انشا پردازی پر جان چھڑکتی ہیں۔ چنانچہ یہ خط ٹھیک نشانے پر بیٹھا۔ شاہ دلگیر خط پاتے ہی قمر زمانی سے ملنے کے لئے دہلی پہنچ گئے۔ نیاز صاحب اور ان کے حلقہ احباب کو جب یہ معلوم ہوا کہ دلگیر صاحب واقعی تشریف لائے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوا کہ قمر زمانی کہاں سے پیدا کی جائیں۔ آخر کار اس کے لئے بھی ایک صورت نکالی گئی۔ ضیا عباس ہاشمی کے عزیزوں میں محمد احمد (محمد احمد کا انتقال پاکستان ہی میں 1964ء میں ہوا ہے) چھریرے بدن کے خوبصورت نوجوان تھے اور زنانہ لباس میں انہیں شناخت کر لینا آسان نہ تھا۔ چنانچہ محمد احمد صاحب کو قمر زمانی کے روپ میں دلگیر صاحب سے ملنے کے لئے بھیجا گیا۔ محمد احمد نے اس ڈر سے کہ کہیں راز فاش ہو جائے، اپنے چہرے سے نقاب نہ اٹھایا۔ پردے ہی سے بات چیت کرتے رہے۔ دلگیر نے نقاب الٹ دینے پر اصرار کیا، لیکن قمر زمانی تیار نہ ہوئیں۔ اس کا دلگیر کی طبیعت پر کچھ ناخوشگوار اثر ہوا اور وہ کچھ دیر بعد اٹھ کر چلے گئے۔ لیکن یہ ناخوشگواری لمحاتی تھی۔ واپس تو چلے گئے، لیکن قمر زمانی کے خیال کو وہ اپنے دل سے نہ نکال سکے۔ ادھر قمر زمانی بیگم نے یہ کیا کہ جس دن دلگیر دلی سے آگرہ کے لئے روانہ ہوئے، اسی دن نہایت چبھتے ہوئے انداز میں مندرجہ ذیل خط ان کے نام ڈال دیا۔
7 نومبر 1916ءوہ آئے بھی اور اٹھ کے چل بھی دیئےیہ مدت بھی کیا مختصر ہو گئیآداب عرض کرتی ہوں۔
خوب قدر بڑھائی، اچھا ذلیل کیا، واہ، دردمند دل والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ آخر پھر تکلیف فرمانے ہی کی کیا ضرورت تھی۔ ملازم کے ہاتھ ہی کہلا دیا ہوتا کہ ہم نہیں آ سکتے۔ میں کیا کہوں، مجھے کیسی شرم آتی ہے اور میں نے کس قدر اپنے اوپر ملامت کی۔ کاش، مجھے پہلے ہی معلوم ہو جاتا کہ آپ ایسی رکھائی برتیں گے تو میں ہر گز گھر سے باہر قدم نہ رکھتی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ نے مجھے برقعہ اتارنے پر کیوں اس قدر مجبور کیا اور میرے انکار پر آپ کیوں بگڑ گئے اور چل دیئے۔
الٰہی توبہ، آج کل کے مہذب اور تعلیم یافتہ لوگ بھی ایسے بے درد ہوتے ہیں، خیر…
طبیعت کو ہوگا قلق چند روز سنبھلتے سنبھلتے جائے گی!
میں پرسوں بریلی جا رہی ہوں اور کہہ نہیں سکتی کب تک وہاں رہوں گی۔ اگر آپ کی شان کے خلاف نہ ہو تو اس پتے پر مجھے یہ تو بتلایئے گا کہ آخر بات کیا تھی۔ پتہ یہ ہے…
بانس بریلی محلہ ذخیرہ، بخدمت صادق حسین صاحب۔
لفافے کے اندر میرے نام کا خط دوسرے لفافے میں بند رکھئے گا۔ میرے خط کے لفافے پر صرف ’’ق، ز‘‘ ہونا چاہئے۔
آپ کی خطاوار’’قمر زمانی‘‘قمر زمانی کا یہ خط، دلگیر کے حق میں سمندِ ناز کو ایک اور تازیانہ ہوا۔ وہ قمر زمانی کے فراق میں حد درجہ مضطرب رہنے لگے۔ حالانکہ زیادتی قمر زمانی کی طرف سے ہوئی تھی، لیکن خط کا یہ اثر ہوا کہ وہ خود کو خطاوار اور قمر زمانی کو معصوم و بے قصور سمجھنے لگے۔ چنانچہ اسی عالم اضطراب میں قمر زمانی کے خط کے جواب میں ایک طویل خط اس طور پر لکھا۔
15 نومبر 1916ءکیسی معصوم بن رہی ہیں آپجان گویا کسی کی لی ہی نہیںسرکار مجرا عرض ہے۔
دوسرا محبت نامہ ملا۔ شرمندہ ہوں کیا جواب دوں، جس نے آپ کو ذلیل کیا خدا اسے ذلیل کرے۔ آہ میں تو بے درد ہوں، درد مند دل میرے پاس کہاں، ہوتا تو آپ کو شکایت ہی کیوں ہوتی۔ ہاں سچ ہے …
اس دل سے مجھے لاگ ہے بے مہر تو میں ہوںتم شان وفا جان وفا کانِ وفا ہو !
خدا آپ کو بایں مہر و محبت سلامت باکرامت رکھے، کیا کروں اپنی کم بخت طبیعت سے مجبور ہوں۔
’’ نازک مزاج میں بھی ہوں گی نازنین نہیں‘‘
آپ نے جس خلوص و محبت سے مجھے بلایا اور میں بدنصیب چلا آیا۔ اس کے شایان شان وہ حجاب نہ تھا، جو برتا گیا۔ آپ کو بے تکلف ہوکر ملنا تھا، کیونکہ دو ٹوٹے ہوئے دلوں میں کوئی بیگانگہ اور پردہ نہیں ہوتا۔ میں ایسا بد نظر بھی نہیں تھا کہ کوئی گستاخی مجھ سے حسن کی سرکار میں سرزد ہوتی، پھر…
مشتاق سے شرم ایسی عاشق سے حجاب ایسااس لئے میں نے آپ سے باادب عرض کیا تھا کہ یہ حجاب باقی نہ رکھئے، جو میری بد قسمتی سے قبول نہ ہوا اور میری التجا، شاہانہ لب و لہجہ میں نامنظور کر دی گئی۔ ٹھکرا دی گئی ہائے…
بات کی تم نے یوں کہ کی ہی نہیں لطف کیا جب نظر ملی ہی نہیںاس بیگانگی کا مجھ پر فوری اثر ہوا اور سمجھا آپ کو مجھ پر اعتبار نہیں، بس یہ خیال مجھ دیوانہ سر کے لئے ہوا تھا جس نے حیف اس قدر جدائی پر مجبور کر دیا ہے…
تم سے قسمت میں میری صورت قفل ابجدتھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانااس پر آپ نے یہ قیامت کی کہ چلتے وقت نہ آپ نے ہاتھ سے دوڑ کر پکڑا، نہ زبان سے روکا…
’’سمند ناز کو اک اور تازیانہ ہوا‘‘
ورنہ ممکن نہ تھا کہ ایک قدم بھی میں ہل سکتا۔ میں تو مرنے کے ارادہ سے گیا تھا اور صبح تک زندہ نہ رہ سکتا، لیکن افسوس…
کبھی پاس ہوتی نہ امید اپنی تغافل سے تیرے مگر ہو گئی !
اور کیوں نہ ہوتی، جب دعوت نامہ کا زیب عنوان یہ متالم شعر تھا…
میری تقریر میں دلگیر رہنا ہی مقدر ہےنہ نکلی آج تک حسرت میں وہ حسرت بھرا دل ہوںاب تو خوش ہوئیں…
لو وہ تمہارا ہی کہا ہو گیاآپ مہذب اور تعلیم یافتہ لوگوں کو برا کہیں اور میں شرم ناردا کو ۔ ہائے اس ظالم سے خدا سمجھے…
شرم ہو تیرا برا دونوں کا ارمان رہ گیااف، شوق دل سنانے کا کس قدر ارمان تھا، لیکن معلوم ہوا یہ میری غلطی تھی…
شوق دل تم سے کیا بیان کرتاکہنے سننے کی بات تھی ہی نہیںآپ دیکھیتں تو میں دکھاتا…
’’ کس قدر جلوے تڑپتے ہیں میرے سینے میں‘‘اور اس وقت آپ کو میرے دردمند دل کا حال معلوم ہو سکتا۔ اب تو میں بے درد ہوں۔ آپ باور کریں تو میں عرض کروں کہ شوق دل سنانے سے زیادہ آپ کے درد دل سننے کا اشتیاق مجھے کشاں کشاں وطن سے لے گیا اور پھر ایسے زمانے میں جب کہ کوئی گھر سے نہیں نکلتا۔ لیکن آہ اپنی شوریدہ طالعی کو کیا کروں …
’’ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘آپ کو معلوم ہے کہ میں آپ کی صحبت سے کس طرح اٹھا اور اٹھنے کے بعد کیا گزر گئی، بس یہ کیفیت تھی کہ…
’’ درد کی طرح اٹھے گر پڑے آنسو کی طرح‘‘وہ رات آہ وہ دلگیر رات میرے لئے قیامت تھی، جس بے چینی اور الم سے صبح ہوئی ہے، لوح دل پر اس کا نقش ثبت ہے۔ نہیں خبر میں کیوں کر زندہ رہا۔ صبح ہوتے ہی لوگوں نے دیکھا کہ ایک زندہ جنازہ ریل پر سفر کر رہا ہے…
کاش میں زندہ واپس نہ آتاکیا کہوں کس قدر مجروح اور دلگیر واپس آیا ہوں۔ آپ کبھی دیکھیں تو دکھائوں…
لاکھ زخموں پر بھی ایک گوشہ سلامت دل میں ہےیہ جگہ کس کے لئے خالی بھری محفل میں ہے’’ کس کے لئے‘‘ کی ضمیر جس طرف راجع ہوتی ہے، اس کا فیصلہ آپ ہی پر منحصر ہے…
تمہیں یہ فیصلہ ٹھہرا تمہیں کہدو خدا لگتی میری طبیعت اور آپ کی طبیعت میں بس اتنا ہی فرق ہے۔ آپ فرماتی ہیں چند روز قلق ہونے کے بعد طبیعت سنبھل جائے گی اور مجھ وفا دوست کی طبیعت کا یہ حال ہے کہ اب حشر تک سنبھلنے والی نہیں…
آندھی کی طرح آئی طبیعت جدھر آئیخیر، یہ تو ہذیانات محبت تھے جو بے ساختہ زبان قلم سے نکل گئے۔ اب میں اپنی بے ادبی، دل شکنی اور گستاخی کی آپ سے باادب معافی چاہتا ہوں۔ خدا کے لئے معاف کر دینا ورنہ مر جائوں گا۔
چاہتا ہوں کہ جب تک حیات مستعار باقی ہے، آپ سے خط و کتابت ترک نہ ہو، فرصت ہو اور جی بھی چاہے تو کبھی کبھی یاد فرماتے رہئے۔
آپ کا قصور واردل گرفتہ… دلگیراس خط کے بعد دلگیر کو آزمانے اور تڑپانے کی غرض سے قمر زمانی دانستہ خاموش ہو گئیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More