احمد خلیل جازم
راولپنڈی پشاور روڈ پر واقع لائن نمبر سات میں ایک مدرسہ ہے، جس سے متصل ایک نو گز لمبی قبر موجود ہے۔ اس قبر کے بارے میں مختلف لوگوں کی مختلف رائے ہے۔ بعض کے نزدیک پیر نوگزے کی قبر میں دراصل غازی عباس علمدارؓ کا نیزہ دفن ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کوئی بہت ہی پہنچی ہوئی ہستی ہیں، جو قبر میں کبھی کبھار ہی آتے ہیں ان کا ایک جگہ ٹھکانہ نہیں ہے۔ لیکن تمام لوگ اس بات پر بہرحال متفق ہیں کہ یہ قبر بہت قدیم ہے اور جس شخص سے بھی پوچھا، اس کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس قبر کو بچپن سے اسی طرح دیکھا ہے اور ان کے آبا و اجداد نے بھی ایسے ہی اسے دیکھا تھا۔ یہ عجب بات ہے کہ گجرات میں جتنے بھی انبیاؑ کی قبور پر حاضری دی، ان تمام کی قبور اونچائی (ٹبے) پر واقع تھیں۔ مذکورہ قبر جو پیر نوگزا کی قبر کہلاتی ہے، وہ بھی اونچائی یعنی ٹبے پر واقع ہے۔ اس قبر کے آس پاس اب بہت زیادہ آبادی ہوگئی ہے۔ بلکہ اسے پوش علاقہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اب تو اس ٹبے کا نام و نشان بھی نہیں رہا۔ لیکن اس کی اونچائی بتا رہی ہے کہ یہ بھی ٹبے پر ہی ہے، جس کی بعد میں مقامی لوگوںنے تصدیق کی۔ ’’امت‘‘ نے قبر کے حوالے سے تحقیق کی تو بہت دلچسپ باتیں سامنے آئیں۔
سائیں نواب، چوہڑ چوک کے محلہ زمیندارہ میں رہتا ہے۔ اس کی عمر 95 برس ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’مجھے صاحب مزار سے بہت عقیدت رہی ہے۔ اگرچہ اب وہاں آنا جانا مفقود ہوگیا ہے۔ بلکہ اب وہاں لوگ کم ہی جا پاتے ہیں، کیونکہ کچھ لوگوں نے اپنے غلط عقائد کی وجہ سے بدمزگی پیدا کر دی ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے لوگوں کا وہاں آنا جانا کم ہوگیا‘‘۔ لیکن جب ’’امت‘‘ کی ٹیم وہاں پہنچی تو مدرسے کے ایک استاد نے قبر کی نہ صرف زیارت کرائی، بلکہ اس حوالے سے مولانا رشید جو مدرسے کے مہتمم ہیں، ان سے ملنے کا بھی مشورہ دیا۔ یہ بھی بتایا کہ ’’اب یہ قبر ایک لمبے کمرے میں محفوظ کر دی گئی ہے۔ یہ جس حالت میں تھی اسی حالت میں اسے محفوظ کیا گیا ہے‘‘۔ سائیں نواب کا دعویٰ تھا کہ ’’ایک وقت تھا یہ سارا علاقہ ویران تھا اور یہاں صرف درخت ہوتے تھے۔ لوگ یہاں آتے، بعض لوگ غیر شرعی حرکات کے بھی مرتکب ہوتے۔ جنہیں ایک روز میں نے سختی سے منع کیا، جس کی وجہ سے بہت زیادہ بدمزگی پیدا ہوئی۔ اسی رات مجھے صاحب مزار کا خواب میں دیدار ہوا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ جس وقت غیر شرعی کام ہوتا ہے، ہم یہاں سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ جس وقت تمہاری لڑائی ہو رہی تھی، اسی وقت ہماری واپسی ہوئی اور ہم نے ہی اس لڑائی کو بند کرایا۔ تم اطمینان رکھو، ہماری جب مرضی ہوتی ہے، ہم یہاں آتے ہیں‘‘۔ سائیں نوا ب کا مزید دعویٰ تھاکہ ’’ہم نے اپنے باپ دادا سے اسے پیر نوگزا ہی سنا ہے۔ ایک بات ضرور ہے کہ یہاں لوگ بہت زیادہ منتیں مرادیں مانگتے تھے اور ان کی مرادیں پوری بھی ہوتی تھی۔‘‘ ایک اور رہائشی صابر جس کی عمر سو برس کے لگ بھگ تھی، وہ خاصہ اونچا سنتا تھا، اس سے قبر کے حوالے سے پوچھا تو اس نے بھی بلند بانگ دعوے کئے۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’ایک وقت تھا یہاں جنگل بیابان تھا۔ لیکن اس جنگل میں ہر جمعرات کو بہت بڑا میلہ لگا کرتا تھا۔ رات گئے تک لوگ یہیں رہتے۔ وہاں قبر کے اوپر ایک درخت نے چھائوں کی ہوئی تھی۔ لوگ اس درخت کے ساتھ منت کے دھاگے باندھتے، قبر کے اردگرد چراغاں کیا کرتے تھے۔ گرمیوں سردیوں میں لوگ آتے دیگیں پکاتے اور تقسیم کیا کرتے تھے۔ پھر خدا جانے کیا ہوا کہ سب کچھ ختم ہوگیا۔ اس وقت یہ قبر ایک اونچے ٹیلے پر واقع تھی، اس کے اردگرد ایک چھوٹی سی چاردیواری بنی ہوئی تھی۔ چھت نہیں تھی لیکن قبر پر منقش ٹائلیں لگی ہوئی تھی جن کا رنگ سیاہی مائل تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ جب اس زیارت کے اردگرد آبادی بڑھنے لگی تو قبر کی چاردیواری سے متصل ایک بڑا بنگلہ بننے لگا۔ ان لوگوں نے قبر کے احاطے کی زمین پر دیوار ڈال دی۔ اگلی صبح دیوار گری ہوئی تھی۔ انہوں نے پھر دیوار چڑھائی، دیوار پھر صبح گر گئی۔ لوگوں نے انہیں کہا کہ صاحب مزار سے اجازت لے کر یہ کام کریں۔ لیکن انہوںنے اس بات کی پروا نہ کی۔ اس پر مستزاد انہی لوگوں نے یہاں صاحب مزار کو ایک ایسی تکلیف دی جو کسی کے گمان میں نہ تھی۔ ہوا یوں کہ رات کو دیوار گرنے کے واقعے کے بعد رات کو یہ لوگ دیوار پر پہرہ دینے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ کوئی آکر شرارت کرتا ہے۔ لیکن اور تو کوئی نہ آیا البتہ ایک بہت بڑا سانپ دکھائی دیا، جسے اکثر لوگ پہلے بھی دیکھ چکے تھے جو اکثر رات کو مزار پر حاضری دینے آتا تھا۔ لیکن لوگوں کی نگاہ پڑتے ہی وہ غائب ہوجاتا۔ اس رات جب سانپ سامنے آیا تو ان لوگوں نے اس پر فائر کھول دیا اور یوں اس سانپ کو مارڈالا، وہ بہت بڑا سانپ تھا۔ پھر جن لوگوں نے سانپ کو مارا تھا، ان لوگوں نے فائدہ نہ پایا بلکہ تباہی و بربادی ان کا مقدر بن گئی۔ اس شخص کے دو بیٹے قتل ہوگئے۔ ایک جوان بیٹا اچانک مرگیا اور آخری بیٹا بھی کچھ عرصہ قبل فوت ہوگیا ہے۔ پورا خاندان تباہ و برباد ہوگیا‘‘۔ صابر نے کہا کہ ’’میں نے آپ سے یہ بات کر تو دی ہے لیکن خدارا یہ بات اپنے تک ہی رکھیے گا۔ کسی سے کچھ نہ کہیے گا، میںبہت لاچار آدمی ہوں میرا نام نہ آنے پائے کہ یہ باتیں میں نے آپ سے کی ہیں‘‘۔ صابر کو تسلی دی کہ آپ کا نام نہیں آئے گا اور نہ ہی آپ کی تصویر دی جائے گی۔ صابر کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کا خاندان بہت زور آور ہے اور اب تک ان سے پورا علاقہ ڈرتا ہے۔ ہم نے کوشش کی کہ صابر اس شخص کا نام اگل دے۔ لیکن اس نے قطعی منہ نہ کھولا اور ہمیں بھی خاموش رہنے کو کہا۔ صابر نے کہا کہ ’’قبر میں محو استراحت بہت پہنچی ہوئی شخصیت ہیں۔ جب بھی آپ کو وقت ملے آپ وہاں جاکرضرور دعا کریں۔ وہاں مانگی ہوئی دعا اللہ پاک رد نہیں فرماتے۔ میں تو اب چلنے پھرنے سے قاصر ہوں۔ پہلے روزانہ جایا کرتا تھا، لوگ وہاں گلے کے امراض اور جسم پر پھنسیوں سمیت دیگر امراض کی شفایابی کیلئے دعا مانگتے جو اللہ پاک منظور کرتے اور مریض کو شفا نصیب ہوتی تھی۔ پھر یہ نوبت آگئی کہ جن کی زمینیں اس قبر کے اردگرد تھیں انہوں نے کوشش کی کہ قبر اور اس کی زمین کو بھی بیچ دیا جائے اور پیسے کھرے کیے جائیں۔ لیکن اس کے ساتھ مسجد تھی جس وجہ سے وہ فروخت ہونے سے بچ گئی ورنہ تو شاید لوگ قبر کا نام و نشان بھی مٹا ڈالتے۔‘‘ ہم نے صابر کو سائیں نواب کے بارے بتایا تو اس نے کہا کہ ’’سائیں نواب اس قبر پر بہت زیادہ جایا کرتا تھا۔ اسے اس صاحب مزار سے عشق تھا۔ اب بے چارے کا بچہ فوت ہوگیا ہے، پھر اس کی بیوی بھی رخصت ہوگئی تو وہ بستر سے جالگا ہے۔ اس کی بھی عمر بہت زیادہ ہوچکی ہے۔ اسے اس مزار سے بہت کچھ ملا ہے، آپ یقین کریں گے کہ سائیں نواب کا باپ گدھے سے ہل جوتا کرتا تھا۔ بیل لینے کی طاقت نہیں تھی، صاحب قبر کی خدمت صدق دل سے کرتا تھا، آج اس کے بچے بڑے بڑے محلات میں رہتے ہیں۔ چوہڑ بازار میں جہاں ایک فٹ جگہ نہیں ملتی وہاں اس کی مارکیٹں ہیں‘‘۔
دو مرتبہ مدرسے جانا ہوا، لیکن وہاں کے مہتمم مولانا رشید سے ملاقات نہ ہو پائی۔ وہاں پر موجود مدرسے کے ٹیچر نے کہا کہ اس حوالے سے مولانا رشید ہی آپ کو بہتر بتا سکتے ہیں۔ ہم نے قبر دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس وقت وہ بچوں کو قرآن کی تعلیم دے رہے تھے۔ بچوں کو سبق پڑھنے کی تاکید کر کے وہ ہمارے ساتھ چل پڑے اور سامنے ایک کمرے کا دروازہ کھولا جس کے باہر سے کنڈی لگی ہوئی تھی۔ ا ندر داخل ہوئے تو ایک لمبا کمرہ تھا، جس کے بائیں طرف دیوار سے جڑی ہوئی ایک نوگز لمبی قبر موجود تھی، جس پر سیاہ پتھر نما ٹائلیں لگی ہوئی تھی۔ وہ ٹائلیں زمانے کی دست برد کا شکار دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کمرے میں مدرسے کا دیگر سامان بھی ایک جانب رکھا ہوا تھا۔ قبر پر کوئی چادر تھی اور نہ ہی کوئی تعویذ تھا۔ مدرسے کے استاد سے صاحب قبر کے بارے دریافت کیا تو ان کا دعویٰ تھا کہ جو بھی اس قبر میں دفن ہیں، وہ کوئی خاص ہستی ہی ہیں۔ تیسری بار جانے پر مدرسے کے مہتمم مولانا رشید سے ملاقات ہوئی۔ مولانا رشید نے جو گفتگو کی، اس نے صاحب قبر کے نام کے علاوہ تمام تشنگی دور کردی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭