شہریار آفریدی کے ستارے مسلسل گردش میں ہیں

0

امت رپورٹ
وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کے ستارے مسلسل گردش میں ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے سعودی عرب کے خلاف سخت جملے استعمال کرنے پر ان کی وزارت جاتے جاتے بچی تھی اور اب منشیات کیس میں بھتیجے کی گرفتاری کے انکشاف نے انہیں پھر مشکل میں ڈال دیا ہے۔ دوسری جانب نواز دور میں متحرک رہنے والے سابق وزیراعلیٰ خیبرپختون اور موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک بھی آج کل خاموش بیٹھے ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ وہ پارٹی کی مرکزی قیادت سے خوش نہیں اور خاموشی سے اپنے مستقبل کی سیاست کی پیش بندی کرنے میں مصروف ہیں۔
پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اپنے طور پر کچھ کر دکھانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ تاہم اس کوشش میں کئے گئے کام ان کے گلے پڑ جاتے ہیں۔ اپنی وزارت سنبھالنے کے بعد شہریار آفریدی نے راولپنڈی کے مختلف تھانوں پر رات گئے چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ لیکن ان کا یہ عمل پی ٹی آئی کے لیے تنازعہ کا سبب بن گیا۔ تھانوں کے ایس ایچ اوز یہ معاملہ اپنے متعلقہ اعلیٰ افسروں تک لے گئے۔ بعد ازاں داخلہ کے وزیر مملکت کو بتایا گیا کہ یہ سرگرمیاں ان کے دائرہ اختیار سے متجاوز ہیں۔ کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد محکمہ پولیس صوبائی معاملہ ہے۔ ذرائع کے مطابق ان چھاپوں کی شکایت پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت سے بھی کی گئی تھی، جس پر شہریار آفریدی کو اندھیری راتوں میں تھانوں پر چھاپے مارنے کا سلسلہ ترک کرنا پڑا۔ یہ اکتوبر کے مہینے کی بات ہے۔ ابھی مشکل سے ایک ڈیڑھ ماہ گزرا تھا کہ ’’کچھ کرنے کا‘‘ جذبہ رکھنے والے شہریار آفریدی ایک اور تنازعہ میں پھنس گئے۔ اس تنازعہ کا چیئرمین پی ٹی آئی اور وزیر اعظم عمران خان نے براہ راست نوٹس لیا۔ یاد رہے کہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر اور سعودی نمائندے ڈاکٹر احمد یوسف الدرویش سے ملاقات کے موقع پر جذباتی وزیر مملکت نے سعودی حکام کے بارے میں کچھ ایسے سخت جملے کہہ دیئے، جو ڈاکٹر احمد اور ان کے ساتھیوں کو بہت ناگوار گزرے اور اس کی شکایت براہ راست وزیر اعظم عمران خان سے کی گئی۔ یہ میٹنگ اسلامک یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبا کے ویزوں میں تاخیر کا معاملہ ڈسکس کرنے کے لیے بلائی گئی تھی۔ تاہم اجلاس کے دوران وزیر مملکت نے سعودی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی حالت زار کا معاملہ بھی اٹھا دیا اور ڈاکٹر احمد کو کہا کہ وہ بطور سعودی شہری، پاکستانیوں سے ہونے والے ناروا سلوک کی شکایت اپنی حکومت تک پہنچائیں۔ یہ سلسلہ مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس ایشو پر بات چیت گرما گرمی میں تبدیل ہو گئی تھی۔ ذرائع کے بقول بعد ازاں اس کی شکایت ڈاکٹر احمد نے اسلام آباد میں موجود سعودی سفیر سے کی اور یوں یہ ایک سفارتی ایشو بن گیا۔ جس کا وزیر اعظم نے سخت نوٹس لیا۔ ذرائع کے مطابق یہ ایشو اس لیے بھی اہم ہو گیا تھا کہ کچھ عرصہ پہلے ہی سعودی عرب نے پاکستان کے لیے اربوں ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ لہٰذا اس جھڑپ پر وزیر اعظم اپنے وزیر مملکت پر حد سے زیادہ برہم تھے۔ حتیٰ کہ انہوں نے شہریار آفریدی سے وزارت لینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس سلسلے میں نہ صرف نوٹیفکیشن تیار کر لیا گیا تھا، بلکہ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کے متبادل کے طور پر دو ناموں کا انتخاب ہو گیا تھا۔ ان میں سے ایک شفقت محمود اور دوسرا بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کا نام تھا۔ واضح رہے کہ یہ وہی اعجاز شاہ ہیں، جو آئی بی کے سربراہ رہنے کے علاوہ رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے تھے اور ان کا شمار مشرف کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ اب وہ تحریک انصاف کا حصہ ہیں۔ تاہم ذرائع کے مطابق اس مشکل وقت میں شہریار کے بااثر سیاسی سسرالی ان کے کام آئے۔ راولپنڈی کے معروف بادشاہ امیر خان آفریدی عرف باشی خان کی فیملی شہریار آفریدی کا سسرالی خاندان ہے۔ باشی خان پہلے نون لیگ اور بعد میں قاف لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑتے رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ شہریار آفریدی کے سسرالی خاندان کا اعلیٰ شخصیات سے پیری مریدی کے حوالے سے بھی تعلق ہے اور بنیادی طور پر یہی تعلق شہریار آفریدی کی وزارت بچانے کے کام آیا۔ تاہم اس کے لیے انہیں اسلام آباد میں سعودی سفیر نواف بن صیدالمالک سے جاکر معافی بھی مانگنی پڑی۔ اس کی ہدایت انہیں وزیر اعظم نے کی تھی۔ ذرائع کے بقول ویسے بھی شہریار آفریدی، عمران خان کی گڈ بک میں نہیں ہیں۔ اوپر سے آئے روز کے اسیکنڈلز اور تنازعات نے ان کی وزارت پر مسلسل خطرے کی تلوار لٹکا رکھی ہے۔
شہریار آفریدی کو اب ایک نئی مشکل نے آگھیرا ہے کہ منشیات کے خلاف مہم چلانے والے وزیر مملکت کا بھتیجا طلال نادر آفریدی منشیات سمیت پکڑا گیا۔ اگرچہ یہ گرفتاری گزشتہ ماہ عمل میں آئی تھی۔ تاہم اس کی تفصیلات اب منظر عام پر آئی ہیں۔ ذرائع کے بقول اس اسکینڈل سے شہریار آفریدی کی وزارت کو پہلے جیسا خطرہ تو نہیں ہے۔ لیکن میڈیا اور اپوزیشن کے ہاتھ ایک نیا ایشو لگ گیا ہے، جس سے پی ٹی آئی قیادت کو یقینا پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا اور پارٹی کے اندر شہریار آفریدی کے مخالف گروپ بھی اس معاملے کو اپنے مفاد میں استعمال کریں گے۔ طلال نادر آفریدی کے خلاف مقدمہ 11 دسمبر 2018ء کو تھانہ جنڈ اٹک میں درج کیا گیا تھا۔ ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ پولیس نے ایک مشکوک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تو ملزمان نے گاڑی بھگا دی۔ بعد ازاں پولیس نے تعاقب کر کے گاڑی روکی تو تلاشی لینے پر نصف کلو سے زائد چرس برآمد ہوئی۔ گرفتار ملزمان میں سے ایک طلال نادر آفریدی نے، جو مبینہ طور پر شہریار آفریدی کا بھتیجا نکلا، ایڈریس بھی اپنے چچا اور وزیر مملکت برائے داخلہ کی سرکاری رہائش گاہ، منسٹر کالونی اسلام آباد لکھوایا۔ اس وقت طلال آفریدی ضمانت پر باہر آچکا ہے۔ جبکہ وزیر مملکت برائے داخلہ کا کہنا ہے کہ قانون کے سامنے وزیر، مشیر اور تحریک انصاف کے کارکن، سب برابر ہیں۔ کوئی وزیر ہو یا اس کا رشتہ دار، قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔
پی ٹی آئی کے اعلیٰ حلقوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک طرف حکومتی اور ریاستی امور چلانے میں پی ٹی آئی ٹیم کو مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری جانب آئے روز کے تنازعات اور اسکینڈلز اس کے لیے پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ماضی میں متحرک رہنے والے بعض اہم رہنما بھی اس مایوس کن صورت حال کے سبب الگ تھلگ بیٹھے ہیں۔ ان میں ہی ایک سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختون اور موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک بھی ہیں۔ ذرائع کے مطابق دوبارہ وزیر اعلیٰ خیبرپختون بننے اور بعد ازاں وزارت داخلہ کا قلمدان حاصل کرنے کے خواہشمند پرویز خٹک ان دونوں کوششوں میں ناکامی پر پارٹی قیادت سے تاحال نالاں ہیں۔ جبکہ موجودہ وزیر اعلیٰ خیبرپختون محمود خان سے ان کے اختلافات بھی دور نہیں ہو سکے ہیں۔ اس صورت حال میں پرویز خٹک اپنی مستقبل کی سیاسی پیش بندی میں مصروف ہیں۔ جس کے لیے انہوں نے نون لیگ سے تعلقات مضبوط کرنے کے لیے روابط بڑھا دیئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا سربراہ بنانے میں بھی پرویز خٹک نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس سلسلے میں پارٹی کے اندر موجود ’’پشتون گروپ‘‘ نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا سربراہ بنانے کے معاملے پر پی ٹی آئی دو حصوں میں تقسیم تھی۔ بالخصوص فواد چوہدری سے تعلق رکھنا والا ’’پنجاب گروپ‘‘ شہباز شریف کو یہ عہدہ دینے کے خلاف تھا۔ جبکہ پرویز خٹک، علی محمد خان اور مراد علی سعید پر مشتمل ’’پشتون گروپ‘‘ اپوزیشن لیڈر کو چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی کے حق میں تھا۔ تاہم پرویز خٹک اور ان کے حامی رہنمائوں کی زبردست لابنگ کے سبب وزیر اعظم عمران خان نے شہباز شریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا سربراہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس اقدام کو شاہ محمود قریشی کی مکمل تائید بھی حاصل تھی۔ ذرائع کے بقول تاہم یہ فیصلہ اب تک شیخ رشید، فواد چوہدری اور ان کے ہم خیال دیگر وزرا کو ہضم نہیں ہوا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More