شام ہوتے ہوتے سیاہ بادلوں نے آسمان کو ڈھانک لیا اور مغرب کے بعد تو آسمان ٹوٹ کر برسا۔ بارش کا چھینٹا پڑتے ہی پورے علاقے میں حسب معمول بجلی غائب ہو گئی۔ سیاہ اندھیرا۔ بارش کا زور اور بلی کی خوفناک پکار جو روتے ہوئے اپنے بچوں کو ڈھونڈ رہی تھی۔ سامعہ اور شافع موم بتی جلائے اوپر سے نیچے تک ہر فلیٹ کے بار بار چکر لگا رہے تھے۔ بارش اور سردی نے اپنا ایسا رنگ جمایا کہ کراچی میں کوئٹہ کی برف باری کا مزہ آگیا۔ سامعہ اور شافع بلی کی بے قراری اور پکار سے بے چین ہورہے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ تین دن کے ننھے ننھے بچے خود کہاں جا سکتے ہیں، جن کی آنکھیں بھی ابھی پوری طرح روشنی اور راستے سے آشنا نہیں ہوئیں۔ رات تیزی سے گزر رہی تھی اور سردی میں اتنی ہی تیزی سے اضافہ ہورہا تھا۔ سامعہ نے بے قرار ہو کر کریم الدین کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بارہ سالہ چھوٹے رحیم نے آنکھیں ملتے ہوئے کئی بار دستک دینے کے بعد دروازہ کھولا۔ سامعہ کو دیکھ کر سلام کیا اور پوچھا۔
’’باجی خیریت، اس وقت آپ؟ شافع بھائی تو ٹھیک ہیں نا؟‘‘ سامعہ نے اس کی ہمدردی پر شکریہ ادا کیا اور جھجھکتے ہوئے پوچھا: ’’بلی کے بچے غائب ہیں اور بلی نے رو رو کر برا حال کر دیا ہے۔ دیکھو وہ کیسی بے قرار ہو رہی ہے۔ کہیں بچے تمہارے ہاں تو نہیں آکر چھپ گئے۔‘‘
رحیم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’آپ بھی کمال کرتی ہیں باجی۔ آپ کو پتہ ہے میری امی جانوروں سے کتنی چڑتی ہیں، وہ بھلا بلی کے بچوں کو اپنے گھر میں گھسنے دیں گی؟‘‘
’’پھر، پھر میں کہاں تلاش کروں انہیں۔ بلی کا رونا مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ہے۔ میں اور شافع اوپر سے نیچے ہر فلیٹ میں پوچھ آئے ہیں۔ اس کے بچے کہیں نہیں ہیں؟‘‘ وہ رونکھی ہورہی تھی۔
’’رحیم کون ہے کس سے باتیں کر رہا ہے تو؟‘‘ رحیم کی امی کی آواز سنائی دی۔
’’امی سامنے والی سامعہ باجی ہیں۔ بلی کے بچے ڈھونڈ رہی ہیں۔‘‘ رحیم نے وہیں سے ماں کو جواب دیا۔
’’ارے وہ تو اب تک مر کھپ گئے ہوں گے۔ میں نے ان کو بوری میں بند کر کے کریم الدین سے باڑہ مارکیٹ کی طرف پھنکوا دیا تھا۔ کم بختوں نے گندگی کی حد ہی کر دی تھی آج تو۔‘‘ رحیم نے ماں کا جواب سنا اور شرمندگی سے سر جھکا کر دروازہ بند کر لیا۔
سامعہ نے باقاعدہ آنسوئوں سے رونا شروع کر دیا۔ شافع دروازے پر پلاسٹک کی لمبی سی تھیلی سر سے پیر تک چڑھائے بچوں کو ڈھونڈنے کے لیے جانے والا تھا۔ سردی سے دانت بج رہے تھے، لیکن وہ دونوں میاں بیوی ہر قسم کی تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار تھے۔ ایک پرانی سی ٹارچ شافع کے ہاتھ میں تھی۔ بلی کی بے قراری حد سے بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں اتر کر نیچے جاتی اور پھر واپس آکر سامعہ کی ٹانگوں سے منہ رگڑنے لگتی۔ پھر سر اٹھا کر شافع کو دیکھتی اور بے قراری سے رونے لگتی۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ ان دونوں سے فریاد اور درخواست کر رہی ہے کہ شاید یہی دونوں اس کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔ سامعہ نے اپنے پیروں سے بے قراری سے لپٹتی بلی کو گود میں اٹھا لیا۔ سینے سے لگا کر اسے پیار کر کے بولی ’’نہ رو مانو، ابھی تیرے بچے مل جائیں گے۔‘‘ شافع نے جوگر پہنے اور نیچے اتر گیا۔ اس کو باڑہ مارکیٹ تک اسی یخ بستہ سیلاب کو عبور کر کے جانا تھا، جس میں کسی بوری میں بند بلی کے بچے پتہ نہیں زندہ بھی ہوں گے یا نہیں۔ مگر اس کے بھی دل کو کسی طرح قرار نہ تھا۔ سامعہ نے اسے خدا حافظ کہا اور سنبھل کر جانے کی تاکید کی، کیونکہ بارش کی تیزی میں بجلی کی گرج چمک میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ باڑہ مارکیٹ ان کے فلیٹوں سے تقریباً دو فرلانگ پر تھی۔ مگر اتنا راستہ طے کرنا انتہائی محال نظر آرہا تھا۔ وہ فلیٹوں سے اترا تو پانی کا ایک بڑا ریلا اس کے پائوں ڈگمگا گیا۔ درود شریف، آیۃ الکرسی اور چاروں قل کا ورد کرتے ہوئے وہ آگے بڑھتا چلا گیا۔ جہاں کوئی بھاری سی چیز نظر آتی، وہ ٹارچ جلا کر دیکھتا۔ کئی مرتبہ تو راستے میں پڑے پتھروں سے ٹکرایا، مگر جوگرز کی وجہ سے پیر محفوظ رہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post