ملک کی مختصر اقتداری تاریخ نے اس تضاد کو ختم کر دیا ہے جس تضاد کا تذکرہ کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کہا کرتی تھیں کہ ’’لاہور اور لاڑکانہ کے وزیر اعظم میں فرق ہے۔‘‘
پچھلی مرتبہ تو پیپلز پارٹی نے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر ہالا کے امین فہیم کو فائز کرنے کے بجائے مذکورہ مسند ملتان کے یوسف رضا گیلانی کے سپرد کردی۔ کیا ملک کا سیاسی سفر اس موڑ سے آگے گزر گیا ہے، جس موڑ پر پاکستان کا اقتدار ’’پنجاب بمقابلہ سندھ‘‘ دیکھا جاتا تھا۔ اب ملکی اقتدار کا کھیل ’’پنجاب مقابلہ پنجاب‘‘ پیش ہو رہا ہے۔ اس بار لاہور کا وزیر اعظم بھی کوٹ لکھپت میں قید ہے اور میاں والی کا وزیر اعظم اپنے وعدوں کا ٹوٹا ہوا کشکول لے کر پاکستان کا خسارہ پورا کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دے رہا ہے۔
’’پاکستانی سیاست کا اقتداری کھیل اپنے منطقی انجام تک پہنچ رہا ہے۔‘‘ اس مؤقف سے اتفاق کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ ’’مانس تین کا فارمولہ عمل میں آنے والا ہے۔‘‘ الطاف حسین کی نقلی جلا وطنی اصلی جلا وطنی میں تبدیل ہونے کے بعد میاں نواز شریف کی نااہلی اور گرفتاری کے بعد اکثر سیاسی مبصر کہتے اور سنے جا رہے ہیں کہ ’’اب تیری باری زرداری‘‘ مگر زرداری کی گرفتاری ہر بار ملتوی ہو رہی ہے۔
سندھ میں آصف زرداری کے حوالے سے بہت بڑے سٹے لگ رہے ہیں۔ ہربار کچھ سیاسی جواری داؤ لگاتے ہیں کہ ’’اس بار زرداری گرفتار ہوگا‘‘ مگر وہ مسلسل ہار رہے ہیں۔ سنا ہے کہ اس بار تو زرداری کی گرفتاری پر کروڑوں کے سٹے لگے۔ اکثر کھلاڑیوں کا خیال تھا کہ چیف جسٹس ریٹائرڈ ہونے سے قبل زرداری کو زنداں میں بھیج دیں گے، مگر وہ اس بار بھی ہار گئے۔ اس بار تو عدلیہ کی طرف سے ملنے والا نرم اور گرم گوشہ دیکھ کر پیپلز پارٹی بھی پریشان ہوگئی۔ بلاول کو معصوم بچہ کہہ کر اس کا نام ای سی ایل سے نکالنا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر مراد علی شاہ کو بھی رعایت دینا پیپلز پارٹی کی سمجھ سے باہر والی بات ہے۔ پیپلز پارٹی اس حوالے سے بھی پریشان ہے کہ جس کو رعایت ملنی چاہئے، وہ تو ابھی تک پریشان ہے، مگر جس کو رعایت کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں، اس پر رعایت کے پھول کیوں نچھاور ہو رہے ہیں؟ کچھ حلقوں میں یہ سرگوشیاں اب بڑھ رہی ہیں کہ کیا آصف زرداری کوئی ڈیل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں؟ اگر آصف زرداری ڈیل کر چکے ہوتے تو اس قدر پریشان نہ ہوتے۔ اس بار بینکنگ کورٹ میں پیشی کے وقت ان کے بلائے گئے حامیوں کی تعداد کچھ کم تھی، مگر ان کو اس اندیشے کے باعث بلایا گیا تھا کہ اگر عدالت کی طرف سے ضمانت میں توسیع کی درخواست منظور نہ ہو تو میڈیا پر ان کی گرفتاری کے مناظر سیاسی نظر رنگ میں رنگے نظر آئیں۔
کچھ وقت قبل یہ سوال پوچھا جاتا تھا کہ ’’آصف زرداری کب گرفتار ہوں گے؟‘‘ اس وقت یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ ’’کیا آصف زرداری گرفتار ہوں گے؟‘‘ آصف زداری کے حصے میں آنے والی اس رعایت کا سبب آخر کیا ہے؟ اس سوال کا جواب آصف زرداری کو بھی معلوم نہیں۔ وہ مسلسل سوچ رہے ہیں کہ ان کو ترسا ترسا کر گرفتار کیا جائے گا یا ان سے کچھ لے دے کے معاملہ نمٹایا جائے گا؟ آصف زداری کے بارے میں یہ خیال پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ ان کی جارحانہ تقاریر اور ان کی گرفتاری سے سندھ میں امکانی احتجاج کی لہر ابھرنے کے خدشے کے باعث اس کی گرفتاری میں جلد بازی نہیں کی جا رہی۔ کچھ سیاسی مبصر اس خیال کے ہیں کہ حکومت اور ان کے ’’ حامی‘‘ ایک وقت میں حزب اختلاف کی دونوں پارٹیوں سے جنگ چھیڑنا نہیں چاہتے۔ جب کہ کچھ مبصر یہ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی میں موجود ناراض ممبران کو بغاوت کی راہ پر لاکر زرداری کی بنیاد کمزور کرکے ان پر بعد میں ہاتھ ڈالا جائے گا؟ ان سارے سوالات کا موڈ اور مزاج الگ ہے، مگر یہ پھر بھی اس بات کا پتہ دے رہے ہیں کہ آصف زرداری وقت کے ساتھ کمزور ہونے کے بجائے طاقتور ہوئے ہیں۔
آصف زرداری کی طاقت کی بنیاد کیا ہے؟ کیا آصف
زرداری کو سندھ کے عوام نے دل سے اپنا لیڈر تسلیم کرلیا ہے؟ کیا آصف زرداری کی گرفتاری سے سندھ میں احتجاج کا طوفان جنم لے گا؟ کیا آصف زرداری گرفتار ہوئے تو پیپلز پارٹی احتجاجی تحریک چلائے گی؟ کیا پیپلز پارٹی احتجاجی تحریک چلانے کی پوزیشن میں ہے؟ کیا سندھ کا عام آدمی اس تحریک کا حصہ بنے گا؟ کیا سندھ کے چھوٹے شہروں اور بڑے دیہاتوں میں لوگ اس طرح سڑکوں پر آئیں گے جس طرح ایم آر ڈی تحریک کے دوران آئے تھے؟ کیا سندھ کے عوام نے آصف زرداری کو اس طرح قبول کیا ہے، جس طرح ایک خاندان آخر میں اپنے بگڑے ہوئے فرد کو قبول کرتا ہے؟ کیا آصف زرداری کی گرفتاری کے بعد ان کے بیٹے بلاول اور پارٹی کے ہنما وہ ’’سندھ کارڈ‘‘ استعمال کر پائیں گے، جو پیپلز پارٹی پچھلی چار دہائیوں سے استعمال کرتی آئی ہے؟ اور سب سے اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حالات میں ’’سندھ کارڈ‘‘ ایک پھر ’’ری چارج‘‘ ہونے لگا ہے؟
یہ ایک المیہ ہے کہ ’’سندھ کارڈ‘‘ کو چارج کرنے والی قوت پیپلز پارٹی نہیں رہی۔ ’’سندھ کارڈ‘‘ میں سیاسی اکاؤنٹ بھرنے والی قوت سندھ میں موجود وہ قوم پرست تھے، جنہوں نے نظریاتی طور پر پنجاب اور عملی طور پیپلز پارٹی کے خلاف سیاست کی۔ پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ سندھ میں قوم پرستی کے طوفان کو روکنے والی قوت پیپلز پارٹی ہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے پاکستان بچانے کے تاثر کو مضبوط کرنے کے سلسلے میں قوم پرستوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ سندھ میں قوم پرست کبھی عوامی طاقت نہیں رہے۔ سندھ میں قوم پرستی روز اول سے مڈل کلاس تک محدود رہی۔ سندھ میں جدید قوم پرستی کے گرو جی ایم سید رہے۔ جی ایم سید نے بڑی کوشش کی کہ وہ قوم پرستی کے حلقے میں سندھ کے وڈیروں اور پیروں کو بھی لائیں، مگر وہ سارے وڈیرے اور پیر عملی طور پر پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے۔ سندھ کے جاگیردار طبقے سے مایوس ہونے کے بعد جی ایم سید نے متوسط طبقے کے شاعروں اور ادیبوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں جی ایم سید کامیاب رہے۔ ستر کے عشرے میں سندھ کے اندر ادیبوں اور دانشوروں کی اکثریت جی ایم سید کے ساتھ تھی۔ سندھی زبان میں قوم پرستی کے حوالے سے نئے ترانے تخلیق ہوئے۔ نئے افسانے لکھے گئے۔ مڈل کلاس کے محدود طبقے میں قوم پرستی جنگل کی آگ کی طرح بڑھتی رہی، مگر وہ قوم پرستی کبھی بھی عوامی صورت اختیار نہ کر سکی۔ مگر جب بھٹو کو پھانسی دی گئی، تب سندھ میں پہلی بار قوم پرستی نے عوامی امنگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد سندھ میں قوم پرستی اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم ہو گیا۔ بھٹو کی پھانسی نے سندھ میں قوم پرستی اور وفاق پرستی کے درمیان موجود سرحد کو سکیڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ وہ دور تھا، جب سندھ میں موجود قوم پرستی کے جذبات کو اقتداری سیاست سے جوڑنے کے لیے ممتاز بھٹو اور عبد الحفیظ پیرزادہ نے بھی ہاتھ پاؤں مارے، مگر وہ کامیاب نہ ہو پائے۔ اس وقت ’’سندھ کارڈ‘‘ بینظیر بھٹو کے ہاتھوں میں آگیا اور پیپلز پارٹی کے اسٹیج سے یہ نعرے فضاؤں میں کبوتروں کی طرح اڑنے لگے کہ ’’پاکستان کی زنجیر بینظیر بینظیر‘‘!
1988ء کے انتخابات میں سندھ کی قوم پرستی بینظیر
بھٹو کے گرد جمع ہوگئی اور یہی وہ سبب تھا کہ ان انتخابات میں پرویز شاہ جیسے مڈل کلاس شخص نے پیر پاگارو کو شکست دی، مگر جب پیپلز پارٹی کی حکومت دو برس کے بعد ختم کی گئی، تب بینظیر بھٹو نے اجرک پہن کر ’’سندھ کارڈ‘‘ کو بھرپور طرح سے استعمال کیا اور سندھ کی سیاسی فضاؤں میں یہ نعرہ ایک شعلے کی مانند بھڑکا کہ ’’ماروی ملیر کی بینظیر بینظیر‘‘۔ یہ وہ دور تھا جب پنجاب سے تعلق رکھنے والے میاں نواز شریف اقتدار کی مسند پر بیٹھے اور بینظیر نے اجرک کا پرچم لہرا کر کہا کہ ’’لاہور کے وزیر اعظم اور لاڑکانہ کے وزیر اعظم میں فرق صاف ظاہر ہے۔‘‘ جس طرح بھٹو کی پھانسی نے سندھ میں قوم پرستی کے طوفان کو جنم دیا، اسی طرح بینظیر بھٹو کے قتل پر سندھ میں قوم پرستی کی بجھتی ہوئی آگ پھر سے بھڑک اٹھی اور اس صورت حال کا بھرپور فائدہ لیتے ہوئے آصف زرداری نے اپنا مشہور نعرہ بلند کیا کہ ’’پاکستان کھپے‘‘ اور اس نعرے نے مسٹر ٹین پرسنٹ کو پاکستان کا صدر بنا دیا۔ یہ ’’سندھ کارڈ‘‘ ہی تھا، جس کے باعث آصف علی زرداری پانچ برس تک پاکستان کے سفید و سیاہ کے مالک بن گئے اور سندھ کا اقتدار دس برس تک اس پیپلز پارٹی کے پاس رہا، جس پیپلز پارٹی کی کمان مکمل طور پر آصف زرداری کے ہاتھوں میں رہی۔ اس عرصے کے دوران پاکستان کے سیاسی پلوں کے نیچے پانی بہتا رہا۔ اب جب کرپشن کے کیسز کے باعث قانون کی ہتھ کڑی آصف زرداری کی کلائیوں کا پتہ پوچھ رہی ہے، تب سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ ’’کیا سندھ کارڈ آصف زرداری کو بچا پائے گا؟‘‘
’’سندھ کارڈ‘‘ میں اس وقت بھی بہت اکاؤنٹ تھا، جب بینظیر بھٹو نے قوم پرستوں سے مل کر سندھ اور پنجاب کی سرحد پر دھرنا دیا تھا۔ وہ سندھ کارڈ اس وقت تو بہت زیادہ بھر گیا تھا، جب اس میں بینظیر بھٹو کا خون شامل ہوگیا، مگر زرداری پارٹی نے جس طرح اقتدار کے مزے لوٹے، اس سے ’’سندھ کارڈ‘‘ میں کوئی بیلنس باقی نہیں بچا۔ کیا اس وقت زرداری اپنے بچاؤ کیلئے سندھ کارڈ کو استعمال کر سکتا ہے؟ آصف زرداری بہت عیار ہے۔ وہ سندھ کارڈ کو اپنے تحفظ میں استعمال کرنا چاہتا ہے، مگر سندھ کارڈ میں اب کوئی بیلنس باقی نہیں بچا۔ آصف علی زرداری نے سندھ کارڈ کو آخری حد تک نچوڑا ہے اور اس وقت سندھ میں وہ قوم پرست قوت باقی نہیں بچی، جو سندھ کارڈ میں سیاسی کریڈٹ بھر سکے۔
جی ایم سید اور رسول بخش پلیجو کے بعد سندھ میں قوم پرستی برائے نام بھی نہیں رہی۔ اب جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ، جی ایم سید کے شاگرد قادر مگسی اور رسول بخش پلیجو کے بیٹے میں وہ قوت باقی نہیں بچی، جو ’’سندھ کارڈ‘‘ کو بھر سکے اور اس ’’سندھ کارڈ‘‘ کو آصف زرداری استعمال کر سکے۔ ’’سندھ کارڈ‘‘ آج بھی اپنا کردار ادا کرسکتا ہے، مگر اس کو بھرنے والی قوم پرست قوت باقی نہیں بچی۔
سندھ میں احساس محرومی آج بھی ہے، مگر اس احساس محرومی کا مالک آصف علی زرداری نہیں۔ آصف علی زرداری کی بھرپور کوشش ہے کہ وفاق کو ’’سندھ کارڈ‘‘ سے ڈرانے کی کوشش کرے، مگر افسوس کہ اس کارڈ میں اب کوئی بیلنس باقی نہیں بچا۔ کیوں کہ سندھ کے قوم پرست اب اس قوت میں نہیں، جو وفاق کے خلاف کوئی نعرہ بلند کرسکیں۔ سندھ کے سارے قوم پرست اب خود اس ’’سندھ کارڈ‘‘ کو استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں، جس میں کوئی بیلنس نہیں۔
سندھی مڈل کلاس کی کچھ پرتیں ’’سندھ کارڈ‘‘ کو پیپلز پارٹی کے حق میں استعمال کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، مگر ’’سندھ کارڈ‘‘ میں وہ بیلنس باقی نہیں، جو پیپلز پارٹی کے لیے آصف زرداری کو بچانے کا بندوبست کر سکے۔
آصف زرداری کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ ’’سندھ کارڈ‘‘ اس بار بھی اقتدار کی اے ٹی ایم مشین میں استعمال کرے، مگر اقتداری ایم ٹی ایم کی اسکرین پر بار بار یہی مسیج ابھر کر آ رہا ہے کہ ’’آپ کے اکاؤنٹ میں اتنا بیلنس نہیں۔‘‘
اور یہ پیغام جناب آصف علی زرداری کے لیے باعث تشویش ہے!! ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post