عبدالملکؒ کی تواضع و انکساری:
میمونؒ کہتے ہیں: میں امیر المومنین سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ کے حکم پر دمشق کی طرف روانہ ہوا۔ عبد الملک کے گھر پہنچا، اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان بڑی عاجزی کے ساتھ سفید قالین پر بیٹھا ہوا ہے، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے آسمان سے زمین پر چاند اتر آیا ہے۔ اس نے آگے بڑھ کر مجھے خوش آمدید کہا۔
جب میں اس کے پاس بیٹھ گیا تو اس نے کہا: میں اباجان سے آپ کی تعریف سنی ہے، مجھے امید ہے کہ حق تعالی آپ کے ذریعے امت کے افراد کو فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے کہا: ’’تمہارا کیا حال ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا: خدا کا احسان اور شکر ہے، میں بالکل ٹھیک ہوں، لیکن مجھے ہروقت یہ کٹھکا لگا رہتا ہے کہ میرے والد کا میرے بارے میں نیک گمان مجھے دھوکہ نہ دے دے، کیوں کہ جیسا وہ مجھے نیک سمجھ رہے ہیں، ویسا میں نہیں ہوں۔ یعنی کہیں مجھ سے کوئی ایسا کام نہ ہو جائے، جس سے میرے والد محترم کے دل کو ٹھیس پہنچے اور مجھے یہ بھی اندیشہ ہے کہ کہیں ان کی میری ساتھ محبت میرے متعلق درست معلومات حاصل کرنے میں رکاوٹ نہ بن جائے اور میں ان کے لیے ایک مصیبت بن جاؤں۔
مجھے اس نوجوان کی باتیں سن کر بڑا تعجب ہوا کہ باپ اور بیٹے کی سوچ کس قدر ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے۔
میں نے اس سے پوچھا: ’’مجھے یہ بتاؤ تمہارا گزارہ کیسے چلتا ہے؟‘‘
اس نے بتایا: ’’میں نے یہاں آتے ہی زمین کا ایک ٹکڑا خرید لیا تھا اور اس کی قیمت میں نے اپنی ایسی کمائی سے ادا کی ہے، جس کے حلال ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں، اس زمین سے مجھے اتنا کچھ مل جاتا ہے جو میرے گذارے کے لیے کافی ہو جاتا ہے اور مجھے مسلمانوں کے مالوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا: تمہاری خوراک کیا ہے؟
اس نے بتایا: کبھی گوشت، کبھی دال اور کبھی سرکہ اور یہی میرے لیے کافی ہے۔
میں نے پوچھا: کیا تم اپنے اندر فخر اور تکبر تو محسوس نہیں کرتے؟
اس نے بتایا: ہاں! میرے دل میں خود پسندی کے جذبات پائے جاتے تھے، لیکن جب سے ابا جان نے مجھے سمجھایا اور شفقت بھرے انداز میں مجھے اس قباحت سے باز رہنے کی تلقین کی، میں نے اسے اپنے دل سے بالکل نکال دیا ہے۔ اب میرا دل بالکل صاف ہے اور یہ ابا جان کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے۔ خدا میرے اباجان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
میں عبد الملک کے پاس کافی دیر بیٹھا، کھل کر باتیں ہوئی، دوران گفتگو میں نے اپنی زندگی میں اس سے بڑھ کر خوب صورت، عقل مند اور نو عمری کے باوجود باادب اور لائق، ہنر مند کوئی نوجوان نہیں دیکھا۔ جب شام ہوئی تو ایک خادم اس کے پاس آیا، اس نے بتایا: ’’خدا آپ کے کام بہتر بنائے، ہم فارغ ہو چکے ہیں۔‘‘
پھر وہ خاموش ہوگیا۔ میں نے پوچھا: یہ کس کام سے فارغ ہوئے ہیں؟
اس نے بتایا: حمام سے۔
میں نے پوچھا وہ کیسے؟
اس نے بتایا کہ انہوں نے میرے لیے غسل خانہ خالی کروایا ہے، اب میں اس میں نہاؤں گا۔
میں نے کہا: جناب یہ سن کر مجھے حیرت ہوئی ہے، تم سے مجھے یہ توقع نہ تھی۔
میرا اندازہ دیکھ کر وہ ڈر گیا اس نے پوچھا: چچا جان خدا آپ پر رحم کرے کیا ہوا؟
میں نے اسے کہا: یہ غسل خانہ تمہارا ہے؟
اس نے بتایا: نہیں۔
میں نے کہا: پھر تمہیں اس کو خالی کرانے کا کیا حق پہنچتا ہے؟ گویا تم اپنے آپ کو لوگوں سے بلند اور بڑا سمجھتے ہو کہ میں عام لوگوں کی طرح لائن میں لگ نہیں سکتا اور تم نے غسل خانے کے مالک کو بھی نقصان پہنچایا ہے، جو لوگ غسل خانہ استعمال کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، ان کو بھی تمہاری وجہ سے دشواری اٹھانا پڑی۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟ تمہیں یہ بات قطعاً زیب نہیں دیتی۔
وہ میری کڑوی باتیں سن کر مسکرایا اور بڑے ادب سے کہنے لگا:
چچا جان ناراض نہ ہوں، غسل خانے کے مالک کو دن بھر کی اجرت دے کر خوش کرلوں گا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post