حضرت ابوالحسن خرقانیؒ طریقت معرفت کا منبع و مخزن تھے۔ حضرت بایزید بسطامیؒ کا دستور یہ تھا کہ سال میں ایک مرتبہ مزارات شہداء کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے اور جب خرقان پہنچتے تو فضا میں منہ اوپر اٹھا کر سانس کھینچتے، جیسے کوئی خوشبو سونگھنے کیلئے کھینچتا ہے۔
ایک مرتبہ مریدین نے پوچھا کہ آپ کس چیز کی خوشبو سونگھتے ہیں، ہمیں تو کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے سرزمین خرقان سے ایک مرد حق کی خوشبو آتی ہے، جس کی کنیت ابو الحسن اور نام علی ہے اور وہ کاشتکاری کے ذریعے اپنے اہل و عیال کی رزق حلال سے پرورش کرے گا اور مجھ سے مرتبہ میں تین گنا ہوگا۔
برسوں حضرت خرقانیؒ کا یہ معمول رہا کہ خرقان سے بعد نماز عشاء حضرت بایزیدؒ کے مزار پر پہنچ کر یہ دعا کرتے کہ خدا جو مرتبہ تو نے بایزیدؒ کو عطا کیا، وہی مجھے بھی عطا فرما دے۔ اس دعا کے بعد خرقان واپس آکر نماز فجر ادا کرتے۔ ایک دن آپؒ نے حضرت ابو سعیدؒ سے فرمایا کہ آج میں نے تمہیں اپنا نائب مقرر کر دیا، کیونکہ عرصہ دراز سے میں یہ دعا کیا کرتا تھا کہ حق تعالیٰ مجھے کوئی ایسا فرزند عطا فرما دے، جو میرا ہمراز بن سکے اور اب میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے تم جیسا شخص عطا کر دیا۔
حضرت ابو سعیدؒ نے کبھی آپ کے سامنے لب کشائی نہیں کی اور جب لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ شیخ کے بالمواجہ بات نہ کرنا ہی داخل ثواب ہے، کیوں کہ سمندر کے مقابلے میں ندیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ پھربتایا کہ خرقان آنے کے وقت میں ایک پتھر کی طرح تھا۔ لیکن آپ کی توجہ نے مجھے گوہر آبدار بنا دیا۔
ایک مرتبہ سلطان محمود غزنویؒ نے ایاز سے یہ وعدہ کیا تھا کہ میں تجھے اپنا لباس پہنا کر اپنی جگہ بٹھا دوں گا اور تیرا لباس پہن کر خود غلام کی جگہ لے لوں گا۔ چنانچہ جس وقت سلطان محمود ابو الحسن سے ملاقات کی نیت سے خرقان پہنچا تو قاصد سے یہ کہا کہ حضرت ابو الحسنؒ سے یہ کہہ دینا کہ میں صرف آپ سے ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا ہوں، لہٰذا آپ زحمت فرما کر میرے خیمہ تک تشریف لے آئیں اور اگر وہ آنے سے انکار کریں تو یہ آیت تلاوت کردینا۔ ترجمہ: ’’خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ اپنی قوم کے حاکم کی بھی اطاعت کرتے رہو‘‘۔
چنانچہ قاصد نے جب آپ کو یہ پیغام پہنچایا تو آپ نے معذرت طلب کی، جس پر قاصد نے مذکورہ بالا آیت تلاوت کی۔ آپ نے جواب دیا کہ محمود سے کہہ دینا کہ میں تو ’’خدا کی اطاعت کرو‘‘ میں ایسا غرق ہوں کہ ایسی حالت میں ’’حاکموں کی اطاعت‘‘ کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ یہ قول جس وقت قاصد نے محمود غزنوی کو سنایا تو اس نے کہا کہ میں تو انہیں معمولی قسم کا صوفی تصور کرتا تھا، لیکن معلوم ہوا کہ وہ تو بہت ہی کامل بزرگ ہیں۔ لہٰذا ہم خود ہی ان کی زیارت کیلئے حاضر ہوں گے اور اس وقت محمود نے ایاز کا لباس پہنا اور دس کنیزوں کو مردانہ لباس پہنا کر ایاز کو اپنا لباس پہنایا اور خود بطور غلام کے ان دس کنیزوں میں شامل ہوکر ملاقات کرنے کو پہنچ گیا۔
گو آپ نے اس کے سلام کا جواب تو دیدیا، لیکن تعظیم کیلئے کھڑے نہ ہوئے اور محمود جو غلام کے لباس میں ملبوس تھا۔ اس کی طرف متوجہ ہوگئے، لیکن ایاز جو شاہانہ لباس میں تھا، اس کی جانب قطعی توجہ نہ دی اور جب محمود نے جواب دیا کہ یہ دام فریب تو ایسا نہیں ہے، جس میں آپ جیسے شاہباز پھنس سکیں۔ پھر آپ نے محمود کا ہاتھ تھام کر فرمایا کہ پہلے ان نامحرموں کو باہر نکال دو، پھر مجھ سے گفتگو کرنا۔
چنانچہ محمود کے اشارے پر تمام کنیزیں باہر واپس چلی گئیں۔ محمود نے آپ سے نصیحت کرنے کی خواہش کی تو آپؒ نے فرمایا کہ گناہوں سے اجتناب کرتے رہو۔ باجماعت نماز ادا کرتے رہو۔ سخاوت و شفقت کو اپنا شعار بنالو اور جب محمود نے دعا کی درخواست کی تو فرمایا کہ میں خدا سے ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ مسلمان مردوں اور عورتوں کی مغفرت فرما دے۔ پھر جب محمود نے عرض کیا کہ میرے لئے مخصوص دعا فرمایئے تو آپ نے کہا کہ اے محمود تیری عاقبت محمود ہو اور جب محمود نے اشرفیوں کا ایک توڑا آپ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے جو کی خشک ٹکیہ اس کے سامنے رکھ کر کہا اس کو کھائو۔
چنانچہ محمود نے جب توڑ کر منہ میں رکھا اور دیر تک چبانے کے باوجود بھی حلق سے نہ اترا تو آپ نے فرمایا کہ شاید نوالہ تمہارے حلق میں اٹکتا ہے۔ اس نے کہا ہاں تو فرمایا تمہاری یہ خواہش ہے کہ اشرفیوں کا یہ توڑا بھی اس طرح میرے حلق میں اٹک جائے، لہٰذا اس کو واپس لے لو، کیونکہ میں دنیاوی مال کو طلاق دے چکا ہوں اور محمود کے بے حد اصرار کے باوجود بھی آپ نے اس میں سے کچھ نہ لیا۔ پھر محمود نے خواہش کی کہ مجھ کو بطور تبرک کے کوئی چیز عطا فرمایئے۔
اس پر آپ نے اس کو اپنا پیراہن دیدیا۔ پھر محمود نے رخصت ہوتے ہوئے عرض کیا کہ حضرت آپ کی خانقاہ تو بہت خوبصورت ہے۔ فرمایا کہ خدا نے تمہیں اتنی وسیع سلطنت بخشی ہے، پھر بھی تمہارے اندر طمع باقی ہے اور اس جھونپڑی کا بھی خواہش مند ہے۔ یہ سن کر اس کو بے حد ندامت ہوئی اور جب وہ رخصت ہونے لگا تو آپ تعظیم کیلئے کھڑے ہوگئے۔ فرمایا کہ اُس وقت تمہارے اندر شاہی تکبر موجود تھا اور میرا امتحان لینے آئے تھے، لیکن اب عجزو درویشی کی حالت میں واپس جا رہے ہو اور خورشید فقیر تمہارے پیشانی پر رخشندہ ہے۔ اس کے بعد سلطان محمود غزنوی رخصت ہو گیا۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post