ترتیب و پیشکش/ ڈاکٹر فرمان فتحپوری
دلگیر کے خط مرقومہ 15 نومبر کا قمر زمانی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہ حربہ بھی کارآمد ثابت ہوا۔ دلگیر کو قمر زمانی کے خط کا انتظار شاق گزرنے لگا۔ روز ڈاک کا ایک پلندہ آتا، بے چینی سے کھولتے، لیکن مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا۔ قمر زمانی کو جس دن خط ڈالا تھا، اس کے دوسرے ہی دن سے جواب کا انتظار کرنے لگے تھے۔ اس انتظار میں ’’صبح کرنا شام کا لانا تھا جوئے شیر کا‘‘۔ یہ بھی اندیشہ تھا کہ خط کہیں دوسرے کے ہاتھ لگے اور ذلت کا سبب بنے۔ اس کشمکش میں پانچ چھ دن انہوں نے کسی طرح کاٹے اس کے بعد تاب انتظار نہ رہی، چنانچہ انہوں نے ساتویں دن پھر قمر زمانی کو لکھا:
22 نومبر 1916ءسرکار!
گرچہ تقدیر سے ہم آپ کے شامل نہ رہےایسے نظروں سے گرے خط کے بھی قابل نہ رہےاللہ اللہ! اس قدر تغافل، آپ نے 15 نومبر کے خط کو اب تک لاجواب رکھا۔ کیا وہ اسی قابل تھا۔
خدا کے لئے جواب فوراً دیجئے، ورنہ مر جائوں گا۔ اتنا معلوم ہو جائے کہ وہ خط آپ تک پہنچ گیا، تسلی ہو جائے گی۔
یہ جانتا ہوں کہ تم اور پاسخِ مکتوبمگر ستم زدہ ہوں ذوق خامہ فرسا کاآپ کا… دل گرفتہاس خط کے جواب میں قمر زمانی نے ایک مختصر سا خط بریلی کے پتے سے ڈالا اور اس انداز سے کہ دلگیر کی بے چینی بڑھانے کا کچھ اور سامان فراہم ہو گیا۔ خط دیکھئے:
بریلی 30 نومبر 1916ء معاف فرمائیے گا آپ کی تحریروں کا جواب میں اس وقت نہیں دے سکی۔ میں اس زمانے میں بہت بیمار ہو گئی تھی اور اب بھی بہت نقیہ ہوں۔ میری اس بیماری کی وجہ خود اپنے دل سے پوچھ لیجئے۔ اس وقت اس سے زائد کچھ نہیں لکھ سکتی۔ آپ کی تحریر مفصل جواب چاہتی ہے، انتظار کیجئے۔ اس سے زیادہ لکھنے کی تاب مجھ میں اس وقت نہیں ہے۔
آپ کی ’’ ق، ز‘‘قمر زمانی کا یہ خط غالباً دلگیر تک نہیں پہنچا۔ راستے میں کہیں گم ہو گیا۔ اس لئے کہ نیاز صاحب کا ایک خط ضیائی کے نام اس طرح کا موجود ہے، لیکن پر اس کوئی تاریخ نہیں ہے:
ضیائی! غضب ہو گیا۔ قمر زمانی کا خط دلگیر کے نام میرے پیچھے میری بھانجی نے ٹکٹ لگا کر پوسٹ کر دیا۔ اب کیا کیا جائے۔
اب ارادہ ہے کہ بھوپال سے دوسرا خط ان کے نام روانہ کیا جائے اور قیام کرنا ظاہر کیا جائے۔ کیا رائے ہے فوراً جواب دو۔
نیازگویا قمر زمانی کے نام، دلگیر کے دو خط لاجواب رہے، لیکن وہ قمر زمانی کی خاموشی سے محسوس نہیں ہوئے۔ انہوں نے آٹھ دس روز انتظارکیا، اس کے بعد انہیں مندرجہ ذیل خط لکھ بھیجا۔
مزار دل12 دسمبر 1916ءاب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہاس قدر دشمنِ ارباب وفا ہو جاناحضور اقدس، ہدیہ محبت قبول ہو۔
اس سے قبل دو خط، ارسال خدمت کر چکا ہوں۔ میری بدقسمتی کہ دونوں لاجواب رہے۔ کس سے شکایت کروں کہ خود قصور وار ہوں…
تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہاس میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی تھا ہاں عفو قصور کا طالب ہوں لطف مجرم پہ مانا کوئی دستور نہیں ہاں تیری بندہ نوازی سے مگر دور نہیںتم ہو مختار مداوا کے، کرو یا نہ کرواپنے قابو میں تو اب یہ دل مہجور نہیںخدا شاہد، آپ کی خاموشی سے میری حالت تباہ ہے، جس کے صرف دو ہی علاج ہیں…
دلدہی چارہ ہے یا ترک محبت لیکناس پہ راضی نہیں تم یہ مجھے منظور نہیںخدا کے لئے جواب دے کر میری حالت سنبھالو، اتنا ہی لکھ دو کہ خطوط مل گئے جرم محبت معاف کر دیا گیا اور، اوریہ بھی نہ کر سکو تو…
تمنا کو تم اپنی منع کر دوہماری جان کے پیچھے پڑی ہےپس اب ’’گریہ مجبور‘‘ آگے کچھ نہیں لکھنے دیتا، ختم کرتا ہوں، مگر لطف و نگاہ مرحمت کا امیدوار ہوں۔
تری نگاہ کو اللہ دلنواز کرے۔
بدستور مہجور’’دل گرفتہ‘‘دلگیردلگیر کا یہ خط 12 دسمبر کا ہے، حالانکہ قمر زمانی نے دلگیر کے پچھلے خطوط کے جواب میں ایک مفصل خط 9 دسمبر کو روانہ کر دیا تھا۔ لیکن یہ خط دلگیر کو غالباً 12 دسمبر کے بعد ملا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post