مرزا عبدالقدوس
جماعت اسلامی نے الیکشن 2018ء کے مایوس کن نتائج سامنے آنے کے بعد ہی متحدہ مجلس عمل سے علیحدہ ہونے پر غور شروع کر دیا تھا۔ جے یو آئی کے قائد اور ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے جارحانہ سیاست اپنانے اور اس پر اعتماد میں نہ لینے پر بھی جماعت اسلامی کی قیادت کو تحفظات تھے۔ جبکہ اسے اپنے ارکانِ جماعت اور کارکنان و ہمدردوں کی اکثریت کے سوالات کا شافی جواب دینا مشکل ہو گیا تھا، جو پہلے ہی ایم ایم اے میں شمولیت کے خلاف تھے اور الیکشن کے بعد ان کی ناراضگی مزید بڑھ گئی تھی۔ اب ایم ایم اے کو خیر باد کہنے کے حتمی فیصلے کے بعد نہ صرف ناراض ارکان کو منانے کی کوشش کی جائے گی، بلکہ سیاسی سرگرمیوں کیلئے اپنا پلیٹ فارم استعمال کرکے عوامی رابطہ مہم بھی شروع کی جائے گی۔ اس رابطہ مہم کے لئے تیاریاں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔
الیکشن 2018ء کے نتائج سامنے آنے پر جماعت اسلامی پاکستان کا یہ خواب تو بکھر گیا تھا کہ دینی جماعتوں کے ووٹرز کو اکٹھا کر کے 2002ء کی طرح بڑی انتخابی کامیابی سمیٹی جائے۔ لیکن معتبر ذرائع کے بعد ان نتائج کے فوراً بعد متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی اپنے طور پر جارحانہ سیاسی حکمت عملی، جس کے لئے جماعت اسلامی سے مشاورت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، اس سے بھی جماعت اسلامی کی قیادت مایوس ہوئی اور عندیہ دیا جانے لگا کہ جماعت اسلامی اب مزید زیادہ عرصہ ایم ایم اے میں شامل نہیں رہے گی۔ لیکن چونکہ نہ کوئی فوری سیاسی ضرورت تھی اور نہ کوئی دوسرا آپشن تھا، اس لئے ایم ایم اے سے الگ ہونے کے اصولی فیصلے کے باوجود حکمت عملی کے تحت اس معاملے پر خاموشی اختیار کرلی گئی۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ جماعت اسلامی کے ملک بھر میں اراکین، ووٹرز اور ہمدرد، جو جماعت اسلامی کی ایم ایم اے میں شمولیت پر ناخوش تھے، انتخابی نتائج نے انہیں مزید مایوس کیا اور ان کے دبائو پر بالآخر جماعت اسلامی کی قیادت نے ایم ایم اے کو خیر باد کہنے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ اب جبکہ نئے امیر جماعت اسلامی کا انتخاب چند ماہ بعد ہوگا اور بلدیاتی الیکشن کا بھی امکان ہے، اس صورت حال میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ جماعت اسلامی اب ایم ایم اے میں نہیں رہے گی اور اپنی سیاسی سرگرمیاں اپنے طور پر اور اپنے جھنڈے تلے ادا کرے گی۔ جماعت اسلامی پاکستان کی ایک معتبر شخصیت نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ گزشتہ الیکشن میں جماعت اسلامی کو ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے بطور ایک پارٹی بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی اسمبلی کی پورے ملک سے صرف ایک سیٹ مل سکی۔ جبکہ صوبائی نشتوں پر بھی یہی صورت حال رہی۔ جماعت اسلامی کے اندرونی حلقوں کے مطابق متحدہ مجلس عمل میں شمولیت اس شکست کی بڑی وجہ تھی۔ اس ذریعے کے بقول جماعت اسلامی صوبہ خیبرپختون اور سراج الحق ذاتی طور پر اس اتحاد میں شمولیت کے زیادہ حامی تھے اور انہیں ہی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اب جب کہ نئے امیر جماعت اسلامی پاکستان کا انتخاب چند ماہ بعد متوقع ہے، سراج الحق نے اس موقع پر ایم ایم اے کو اعلانیہ خیر باد کہنے کا بیان دے کر جماعت اسلامی کے اندر ایم ایم اے میں شمولیت کے فیصلے کے اپنے ناقدین کی رائے کو اپنے حق میں نرم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی انہیں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ آئندہ جماعت اسلامی کو کسی اتحاد کے بجائے اس کی آزادانہ سیاسی حیثیت اور اس کے اپنے پلیٹ فارم سے سیاسی کردار ادا کرنے کے حامی ہیں۔ جماعت اسلامی کی اپنی شناخت کو مزید نمایاں کرنے کے لئے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے اٹھارہ جنوری سے سترہ فروری یعنی تیس روزہ رابطہ عوامی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس دوران عوامی شعور بیدار کر کے حکمرانوں کو بھی احتساب کے دائرے میں لانے میں کوشش کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق سینیٹر سراج الحق الیکشن کے بعد سے اب ایک بار پھر دوبارہ محترک ہو رہے ہیں اور رابطہ عوامی مہم شروع کر رہے ہیں۔ اس دوران جماعت اسلامی کی شناخت کو نمایاں کرنے کے علاوہ جماعت اسلامی کے امیر کے الیکشن بھی ان کے سامنے ہیں اور ان کو مدنظر رکھ کر ہی ایم ایم اے کے بجائے جماعت اسلامی کا پلیٹ فارم آئندہ سیاسی سرگرمیوں کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ رابطہ عوامی مہم بھی ذرائع کے مطابق اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اور اسلام آباد کے سابق رکن قوم اسمبلی میاں محمد اسلم سے بات چیت کی تو انہوں نے کہا کہ ’’ایم ایم اے صرف الیکشن 2018ء کے لئے بنائی گئی تھی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ دینی جماعتوں کے ووٹ اکٹھے کر کے اچھے انتخابی نتائج حاصل کئے جائیں۔ جمہوری عمل کے ذریعے اسلامی انقلاب کی راہ ہموار ہو سکے۔ لیکن یہ کوشش نتائج کے اعتبار سے کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس کے باوجود ہم مایوس نہیں ہیں۔ پھر بھی ایسی کوشش ہو سکتی ہے۔ لیکن اب جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اقامت دین کے لئے تحریک چلانا ہمارے ان مقاصد کا حصہ ہے، جس کے لئے ہم جدوجہد کررہے ہیں۔ میاں محمد اسلم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’جن جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی، نواز لیگ سے راہ و رسم بڑھانے کی باتیں ہو رہی ہیں یا ایک اور جماعت پی ٹی آئی ہے۔ یہ سب وہ لوگ ہیں، جو پارٹیاں اور جماعتیں بدل کر گزشتہ کئی دہائیوں سے اقتدار میں ہیں اور انہوں نے ہی اسلامی انقلاب کا راستہ روک رکھا ہے۔ اگر مذہبی جماعتوں نے ان سے اتحاد کرنا ہے تو پھر ہماری جدوجہد کس نظام کے خلاف ہے اور کس انقلاب کے لئے ہم کوشاں ہیں‘‘۔ ایک اور سوال پر نائب امیر جماعت اسلامی میاں محمد اسلم کا کہنا تھا کہ ’’ایم ایم اے صرف گزشتہ عام انتخابات کی حد تک تھا کہ دینی ووٹ الگ الگ جماعتوں میں تقسیم ہوکر ضائع نہ ہوں۔ اب جماعت اسلامی اپنے پلیٹ فارم سے کرپشن فری پاکستان، یکساں اور برابری کی سطح پر سب کا احتساب کے لئے اپنے پلیٹ فارم سے عوامی مہم چلائے گی اور عوامی شعور بیدار کر کے ملک میں اسلامی انقلاب کے لئے اپنی جدوجہد کو تیز کرے گی‘‘۔
٭٭٭٭٭