امت رپورٹ
ماڈل ٹائون واقعہ پر طاقت ور بیوروکریسی کے درمیان ایک غیراعلانیہ الائنس بنا ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں بلند و بانگ دعوے کرنے والی پی ٹی آئی حکومت کسی ایک افسر کو بھی اس کی پوسٹ سے ہٹانے میں ناکام رہی، جن کے نام تحریک منہاج القرآن نے اپنی ایف آئی آر میں درج کرائے تھے، اور اس کا مطالبہ تھا کہ ان افسروں کو پوسٹوں سے فارغ کیا جائے، تاکہ وہ تحقیقات پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔ گھٹنے ٹیکنے والی پی ٹی آئی حکومت کو خطرہ تھا کہ طاقت کے ذریعے ان افسروں کو ہٹائے جانے کی صورت میں بیوروکریسی میں بغاوت ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب حکومت کی طرف سے سانحہ ماڈل ٹائون کی تفتیش کے لیے اب نئی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے، جس کا نوٹیفکیشن 3 جنوری کو جاری کیا گیا تھا۔ اس کے بعد جے آئی ٹی نے جمعہ سے اپنا کام شروع کر دیا۔ اس جے آئی ٹی کے سربراہ سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ ہیں۔ جبکہ پانچ رکنی ٹیم کے دیگر ارکان میں آئی ایس آئی کے لیفٹیننٹ کرنل محمد عتیق الزمان، ایم آئی کے لیفٹیننٹ کرنل عرفان مرزا، آئی بی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل محمد احمد کمال اور گلگت بلتستان پولیس کے ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر قمر رضا جسکانی شامل ہیں۔ قبل ازیں ماڈل ٹائون واقعہ کی تحقیقات کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ایک جوڈیشل کمیشن بنایا تھا اور پھر ایک جے آئی ٹی بھی بنائی گئی۔ تاہم منہاج القرآن کے سربراہ طاہرالقادری نے ان دونوں کی رپورٹس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
سانحہ ماڈل ٹائون کے تحقیقاتی عمل سے واقف معتبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اقتدار ملنے کی صورت میں پی ٹی آئی نے نہ صرف اپنے دھرنے کے دنوں کے ساتھی طاہرالقادری سے واقعہ کی ازسرنو تحقیقات کا وعدہ کیا تھا۔ بلکہ تحقیقات سے قبل ان تمام اعلیٰ افسران کو ان کی پوسٹوں سے ہٹانے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی، جنہیں منہاج القرآن نے اپنی ایف آئی آر میں نامزد کیا تھا۔ اس وقت چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، نون لیگی حکومت پر ان افسران کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام لگایا کرتے تھے۔ تاہم ذرائع کے بقول جب پی ٹی آئی خود اقتدار میں آئی تو اسے بیوروکریسی کی طاقت کا اندازہ ہوا۔ حکومت کی کوشش تھی کہ طاہرالقادری کو رام کرنے کے لیے واقعہ میں نامزد کم از کم تین چار بڑے افسروں کو ہی پوسٹوں سے ہٹا دیا جائے۔ تاہم جب یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کر لیا گیا تو معلوم ہوا ہے کہ بیوروکریسی کا کوئی متعلقہ افسر ماڈل ٹائون واقعہ میں نامزد افسروں کو ہٹانے پر تیار نہیں، اور اگر طاقت کے زور پر قدم اٹھانے کی کوشش کی گئی تو بیوروکریسی کی جانب سے اعلانیہ بغاوت کا خطرہ ہے۔ ذرائع کے مطابق اس صورت حال پر بڑ بولی پی ٹی آئی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور اپنی اس بے بسی کا اظہار باقاعدہ طور پر وزیر اعظم عمران خان نے طاہرالقادری سے بھی کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ بیوروکریسی کے جن اعلیٰ افسروں کو ہٹائے جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا، ان میں مشتاق سکھیرا بھی شامل ہیں، جو واقعہ کے وقت آئی جی پنجاب تھے، اور اس وقت وفاقی ٹیکس محتسب ہیں۔ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک یا تحریک منہاج القرآن مشتاق سکھیرا کو واقعہ کا مرکزی کردار قرار دیتی ہے۔ اسی طرح اعلیٰ بیوروکریٹ ڈاکٹر توقیر شاہ، جو واقعہ کے وقت وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے پرنسپل سیکریٹری تھے، لیگی حکومت نے ان کی پوسٹنگ بیرون ملک ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں کر دی تھی۔ ماڈل ٹائون واقعہ میں منہاج القرآن کی جانب سے نامزد کئے جانے والے دیگر اہم افسران میں کیپٹن (ر) عثمان، ایس پی عبدالرحیم شیرازی، ایس پی سلمان علی، ایس پی طارق عزیز، عمر ورک، ڈی آئی جی رانا عبدالجبار اور طارق چانڈیو بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ کیپٹن (ر) عثمان، واقعہ کے وقت ڈی سی او لاہور تھے اور اب پنجاب فوڈ اتھارٹی کے سربراہ ہیں۔ اسی طرح طارق چانڈیو اب ڈی سی او شکارپور ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کا کام ماڈل ٹائون واقعہ کی غیر جانبدارانہ تفتیش کر کے اس میں ملوث مختلف سیاسی رہنمائوں اور انتظامی افسروں کے کردار کی نشاندہی کرنا ہے۔ یعنی جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم صرف سفارشات دے سکے گی۔ کارروائی حکومت نے ہی کرنی ہے، جو قبل ازیں طاقت ور بیوروکریسی کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سابق پنجاب حکومت کی جانب سے کوئٹہ پولیس کے چیف عبدالرزاق چیمہ کی سربراہی میں بنائی گئی پانچ رکنی جے آئی ٹی میں بھی آئی ایس آئی کی نمائندگی کے طور پر کرنل احمد بلال اور آئی بی کے ڈائریکٹر محمد علی شامل تھے۔ اس جے آئی ٹی نے شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کو کلین چٹ دے دی تھی۔ لہٰذا یہ سوال اہم ہے کہ کم و بیش ان ہی اداروں پر مشتمل نئی جے آئی ٹی کیا پرانی جے آئی ٹی کی تفتیش کو یکسر مسترد کر دے گی؟ پرانی جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مختلف نجی ٹی وی چینلز کی فوٹیجز کے ذریعے پولیس کی بکتر بند کو نقصان پہنچانے، پولیس اہلکاروں پر پتھرائو اور پیٹرول بم پھینکنے والے پاکستان عوامی تحریک کے 42 ورکرز کی بھی نشاندہی کی گئی۔
تاہم منہاج القرآن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی جے آئی ٹی بننے سے انہیں تھوڑی تسلی ہوئی ہے۔ اور وہ پرامید ہیں کہ اس بار غیر جانبدارانہ تحقیقات کے نتیجے میں ماڈل ٹائون واقعہ میں ملوث تمام کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے گا۔ اور بیوروکریسی کے ان طاقت ور افسروں کو بھی گھر بھیجا جا سکے گا، جو ایف آئی آر میں نامزد ہیں۔ پہلی جے آئی ٹی کے حقائق کو یکسر مسترد کرنے والی تحریک منہاج القرآن کے ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ واقعہ کے وقت جائے وقوعہ پر موجود مختلف ہدایات جاری کرنے والے تمام پولیس افسروں اور انتظامیہ کے ذمہ داران کی ویڈیو فوٹیجز ان کے پاس ناقابل تردید شواہد کی صورت میں موجود ہیں، جو جے آئی ٹی کی طرف سے مانگے جانے پر انہیں فراہم کی جائیں گی۔ اسی طرح مقتولین کی لاشوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹس، زخمیوں کے بیانات اور اسپتال کے براہ راست مناظر کی ویڈیوز بھی تفتیش کاروں کے حوالے کی جائیں گی۔ منہاج القرآن کے ایک عہدیدار کے بقول رانا ثناء اللہ اور ڈاکٹر توقیر شاہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کے روبرو یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ 17 جون 2014ء کو ہونے والے ماڈل ٹائون واقعہ سے ایک روز پہلے 16 جون کو وزیر اعلیٰ ہائوس میں ایک میٹنگ ہوئی تھی، جس کا بنیادی ایجنڈا طاہرالقادری کی وطن واپسی پر انہیں روکنا تھا۔ عہدیدار نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ نون لیگی قیادت نے ماڈل ٹائون واقعہ پر پس پردہ مفاہمت کی متعدد کوششیں کیں۔ اس کے لیے نہ صرف خواجہ سعد رفیق اور اسحاق ڈار رابطے کرتے رہے، بلکہ کئی مشترکہ دوستوں کو بھی درمیان میں ڈالا گیا۔ حتیٰ کہ بعض ہمسایہ ممالک کی اہم شخصیات کے ذریعے بھی دبائو ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ واضح رہے کہ منہاج القرآن کا بنیادی الزام یہ ہے کہ ماڈل ٹائون واقعہ کی ساری پلاننگ شریف برادران کی ہدایات پر کی گئی۔ جبکہ اس پر عمل درآمد اس وقت کے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ، پرنسپل سیکریٹری وزیر اعلیٰ ڈاکٹر توقیر شاہ اور ہوم سیکریٹـری میجر (ر) اعظم سلیمان نے کرایا تھا۔
٭٭٭٭٭
Prev Post