رویت ہلال کمیٹی ختم کرنے پر غور شروع

0

عظمت علی رحمانی
حکومت نے رویت ہلال کمیٹی کو ختم کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ چاند دیکھنے کا معاملہ عملی طور پر محکمہ موسمیات کو دیئے جانے کا امکان ہے۔ تاہم اس ضمن میں برسوں سے بغیر تنخواہ کے رویت ہلال کمیٹی کو چلانے والے مفتی منیب الرحمن سے کوئی ڈسکشن نہیں کی گئی۔ دوسری جانب مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے چاند کی رویت کو شریعت کے مطابق کرنے کے کسی بھی اقدام کو خوش آئند قرار دے دیا ہے۔
ہر سال عیدکا چاند دیکھنے کے حوالے سے پاکستان کو عالمی سطح پر جگ ہنسائی کا سامنا کرنے اور سالانہ واحد متفقہ اسلامی تہوار اختلافات کی نظر ہونے پر حکومت پر تنقید ہی نہیں، بلکہ اس اہم ایشو سے پہلو تہی برتنے کا الزام بھی لگ رہا تھا۔ یہی سبب ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کے بعض فیصلوں سے اختلافات کرنے والے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو رمضان کے آخری عشرے میں عید سے کچھ روز قبل ملک سے باہر بھیج دیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے گزشتہ عید ملک بھر میں ایک ہی روز منائی گئی۔ تاہم اس کے بعد سے اعلیٰ سطح پر کوشش کی جا رہی تھی کہ رویت ہلال کمیٹی کو ہی ختم کردیا جائے۔ یہ معاملہ علمائے کرام کے بجائے براہ راست متعلقہ محکمہ موسمیات کو دے دیا جائے، تاکہ وہاں سے ہی چاند دیکھے جانے کا اعلان سرکاری طو رپر ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے ذریعے کیا جائے۔ اس حوالے سے رویت ہلال کمیٹی کے بعض ممبران سے بھی معلومات لی گئیں۔ تاہم رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن سے اس حوال سے کوئی ڈسکشن نہیں کی گئی ہے۔
معلوم رہے کہ رویت ہلال کی مرکزی کمیٹی میں 22 علمائے کرام ہیں۔ جن میں مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا سید عبدالخبیر آزاد، مفتی محمد ابراہیم قادری، ڈاکٹر عبدالغفور، علامہ افتخار حسین نقوی، مولانا محمد یٰسین ظفر، مولانا ڈاکٹر عبدالرشید الازہری، اخوندزادہ سید عبدالمتین شاہ بخاری، مولانا میاں عنایت الرحمن، مفتی عارف سعیدی، مولانا ڈاکٹر عبداللہ غازی، مولانا ظفر سعیدی، مولانا سید ارشاد حسین شاہ، مولانا عبدالمالک بروہی، مولانا قاری سید اختر شاہ، مولانا عبدالعزیز اشعر، مولانا محبوب علی سہتو، مولانا سید خالد محمود ندیم، علامہ پیر سید شاہد علی شاہ جیلانی، آغا گوہر علی اور غلام مرتضی ڈپٹی چیف منیجر اسپیس سائنس (اسپارکو) شامل ہیں۔ مفتی منیب الرحمن گزشتہ 18 برس سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین چلے آرہے ہیں۔ جبکہ انہوں نے اس دوران کبھی ایک روپیہ بھی تنخواہ وصول نہیں کی۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے 20 اراکین کو سابق وزیر مذہبی امور سید خورشید شاہ نے بھرتی کیا تھا، جبکہ سابق وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف نے ڈاکٹر عبدالغفور اور مولانا میاں عنایت الرحمن کو بھرتی کیا تھا۔ یہ بھی معلوم رہے کہ چیئرمین سمیت کسی بھی رکن کو کوئی تنخواہ یا مراعات نہیں دی جاتیں۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سالانہ 4 مرکزی اجلاس ہوتے ہیں، جن میں شہر سے باہر سے آنے والے اراکین کو اپنے اسٹیشن سے مقامِ اجلاس تک اکانومی کلاس کا ٹکٹ اور عام ہوٹل میں ایک رات کے ٹھہرنے کا خرچہ دیا جاتا ہے۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اکثر اجلاس کراچی میں ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے انہوں نے کبھی کوئی خرچ یا الاؤنس نہیں لیا۔
حکومت کی جانب سے رویت ہلال کمیٹی کو ختم کرنے یا اس کے ممبران کی تعداد کم کرنے کے حوالے سے مفتی منیب الرحمن کا کہنا ہے کہ ’’ہم للہ فی اللہ کام کر رہے ہیں اور ہمیں کسی نے نہیں بتایا کہ اس کو ختم کیا جا رہا ہے یا نہیں۔ پاکستان میں رویت ہلال جیسا نظام دنیا بھر میں کہیں بھی نہیں ہے۔ ملائیشیا یا ترکی وغیرہ میں بھی رویت کے اعتبار سے فیصلے نہیں ہوتے‘‘۔
محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ عبدالرشید کا کہنا ہے کہ ’’محکمہ موسمیات ہر ماہ چاند کے حوالے سے معلومات رویت ہلال کمیٹی اور وزارت مذہبی امور سے شیئر کرتا ہے۔ تاہم چاند دیکھنے کی ذمہ داری مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی ہے۔ البتہ ہم تین چار روز قبل اپنے ماہرین کے نتیجے کے بعد یہ بتا دیتے ہیں کہ چاند کس اینگل سے ہے، کس ڈیوریشن پر ہے، اس کی برتھ کب ہوئی۔ اس کے بعد مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے علمائے کرام آتے ہیں، جن کی ہم میزبانی بھی کرتے ہیں۔ ٹیکنیکل معاونت بھی کرتے ہیں، جس میں ٹیلی اسکوپ (دوربین) اور آپٹیکل تھیوڈو لائٹ شامل ہیں‘‘۔
واضح رہے کہ چاند کی رویت کیلئے علمائے کرام کو اس لئے رکھا جاتا ہے کہ لوگ ان کی بات کا اعتبار کرتے ہوئے ان کے اعلان کو تسلیم کرتے ہیں۔ رویت ہلال کمیٹی میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کو رکھنے کا جواز بھی یہی ہے۔ کسی بھی شہر سے آنے والی شہادتوں کو پرکھنے کیلئے عالم دین کے ذریعے اس شہادت دینے والے کی کنفرمیشن کی جاتی ہے کہ آیا اس بندے کی شرعی گواہی درست تسلیم کی جاسکتی ہے یا نہیں۔
جامعہ کراچی انسٹیٹیوٹ آف اسپیس اینڈ پلانیٹری ایسٹروفزکس کے سابق ڈائریکٹر اور ماہر فلکیات ڈاکٹر شاہد قریشی کی تحقیق کے مطابق دنیا میں اس وقت تین اہم قمری تقویمات (calendars) رائج ہیں۔ ان میں یہودیوں، ہندوؤں اور چینیوں کے کیلینڈر شامل ہیں۔ قمری مہینے کے آغاز کیلئے نئے چاند کی ’’پیدائش‘‘ کے وقت کو دیکھا جاتا ہے۔ زمین کے گرد مدار میں گردش کی وجہ سے چاند آسمان پر مشرق سے مغرب کی سمت لگ بھگ 12.5 درجے روزانہ کی رفتار سے سفر کرتا نظر آتا ہے۔ اس طرح جب آسمان پر چاند جس وقت سورج کو مشرق سے مغرب کی جانب پار (cross) کرتا ہے تو اس لمحے کو ’’نئے چاند کی پیدائش‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کے قمری کیلنڈر میں اگر شہر یروشلم کے مطابق نئے چاند کی پیدائش غروب آفتاب سے پہلے ہو جائے تو قمری کیلنڈر کے نئے مہینے کا آغاز اسی غروب آفتاب سے کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ ہندوؤں کے قمری کیلنڈر میں نئے قمری مہینے کی ابتدا طلوع آفتاب سے ہوتی ہے، اگر چاند کی پیدائش طلوع آفتاب سے پہلے ہو جائے۔ چینی قمری کیلنڈر میں بھی اسی طرح کا نظام ہے نئے قمری مہینے کی ابتدا کیلئے۔ یہ تمام کیلنڈر پہلے ہی سے طے کرلئے جاتے ہیں۔
سعودی عرب میں بھی پہلے سے طے شدہ قمری کیلنڈر جسے ام القراء کیلنڈر کہا جاتا ہے، رائج ہے۔ البتہ اس میں نئے قمری مہینے کی ابتدا کیلئے دو شرائط ہیں۔ ایک تو یہ کہ مکہ کے مطابق چاند کی پیدائش غروب آفتاب سے پہلے ہو۔ (جو دوسرے قمری کیلنڈر میں بھی ضروری ہے)۔ دوسرے یہ کہ غروب آفتاب کے بعد بھی ہلال افق سے اوپر ہو۔ یعنی چاند سورج سے پہلے غروب نہ ہو جائے۔ مگر یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان دو شرائط کے پورے ہونے کے باوجود ہلال کا آنکھ سے دکھائی دینا قطعی ضروری نہیں ہے۔
یہود، ہنود اور چینیوں کے کیلنڈر کے پہلے سے طے شدہ ہونے کی وجوہات ہیں، جس پر اس وقت بات نہیں کی جائے گی۔ البتہ اس قسم کے کیلنڈر اور سعودی کیلنڈر میں ایک اور بہت اہم بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ سعودی کیلنڈر میں ہر قمری سال میں 12 ہی مہینے (354 یا 355 دن) ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے قمری سال شمسی سال سے ہر برس لگ بھگ 11 دن پیچھے رہ جاتا ہے۔ چنانچہ قمری مہینے سال کے مختلف موسموں سے گزرتے ہیں۔ جبکہ یہود، ہنود اور چینیوں کے کیلنڈر میں ہر دو تین قمری سالوں میں ایک اضافی مہینہ شامل کر دیا جاتا ہے، تاکہ قمری سال کو شمسی سال یعنی موسموں کے ساتھ ساتھ رکھا جا سکے۔ اس اضافی مہینے کی شمولیت کو INTERCALATION کہا جاتا ہے۔ اسلام آنے سے پہلے دنیائے عرب میں بھی یہی کیا جاتا تھا، جسے یہود نے جاری رکھا۔ البتہ اسلامی نظام میں قرآن و حدیث کی روشنی میں دو اہم تبدیلیاں کی گئیں۔ پہلی اہم تبدیلی تو یہ کہ سال میں مہینے 12 ہی ہیں، یعنی INTERCALATION کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ دوسری اہم تبدیلی یہ کی گئی کہ نئے قمری مہینے کے آغاز کیلئے نئے ہلال کا آنکھ سے دکھائی دینا ضروری قرار پایا۔ اس طرح اسلامی قمری تقویم میں تقویم کا پہلے سے طے شدہ ہونا ضروری نہیں رہا۔ اس کے پیچھے اسلام کی حکمت پر الگ گفتگو کی جائے گی۔ البتہ مسلم دنیا مختلف سیاسی اکائیوں (ممالک) میں منقسم ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی اور فقہی نظاموں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے کسی ایک طریقے پر قمری مہینے کے آغاز کیلئے تیار نظر نہیں آتی۔ سعودی عرب سمیت کئی دوسرے مسلم ممالک نے اپنے اپنے نظام وضع کئے ہوئے ہیں۔ چند ہی ممالک ہیں، جن میں نئے ہلال کے آنکھ سے دکھائی دینے پر ہی نیا قمری مہینہ شروع کیا جاتا ہے۔ ان میں پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور ایران قابل ذکر ہیں۔ چونکہ بیشتر ممالک میں نیا ہلال ایک ہی دن دکھائی نہیں دیتا، چنانچہ رمضان اور عیدین کے دن مختلف ہوتے ہیں۔ فی زمانہ علم کی ترقی اور معلومات کی تیز رفتار ترسیل نے جہاں انسانیت کیلئے بہت سی سہولتیں پیدا کر دی ہیں، وہیں بہت سی بد گمانیاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ سعودی عرب اپنے فیصلے پہلے سے طے شدہ ام القراء کیلنڈر کے حساب سے کرتا ہے اور سعودی علما کونسل اعلان کر دیتی ہے کہ چاند نظر آ گیا۔ مگر پوری اسلامی دنیا میں یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ وہاں واقعی ہلال نظر آ گیا، چنانچہ نیا قمری مہینہ (خاص طور سے رمضان اور شوال ) شروع کر دیئے جائیں۔ جبکہ وہ ممالک جو نئے چاند کے آنکھ سے نظر آنے پر ہی نیا قمری مہینہ شروع کرتے ہیں، وہاں رمضان کا آغاز اور عیدین زیادہ تر ایک دن بعد ہوتے ہیں۔
پروفیسر (ر) ڈاکٹر محمد شاہد قریشی کے مطابق موجودہ مرکزی کمیٹی بالکل درست کام کر رہی ہے۔ رمضان اور عیدین پر مسئلہ سعودی نظام کی غلطیوں اور پشاور کے علما کی غلط شہادتوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ سعودی نظام میں ہلال دیکھا ہی نہیں جاتا اور ام القرا کیلینڈر کے حساب سے مہینہ شروع کیا جاتا ہے۔ جبکہ پشاور کے بعض علما شہادتوں کو پرکھنے کے جدید طریقوں کو استعمال نہیں کرتے۔ ایک سوال پر ڈاکٹر شاہد قریشی نے بتایا کہ ’’الحمد للہ میں نے اس موضوع پر PhD کر رکھا ہے اور 2004ء سے مرکزی کمیٹی کو ٹیکنیکل معاونت فراہم کر رہا ہوں۔ جامعۃ الرشید کے علما کو بھی جدید سائنسی تربیت فراہم کر چکا ہوں اور وہ بھی جدید سائنسی خطوط پر کام کر رہے ہیں۔ محکمہ موسمیات میں کوئی فلکیات دان موجود نہیں ہے اور ان کی معلومات کی source دوسرے ذرائع کی بنیاد پر ہوتی ہیں، جن کو اکثر وہ بالکل غلط interpret کرتے ہیں۔ لہذا براہ مہربانی موجودہ نظام کو جاری رہنے دیا جائے۔ پشاور کے علما کو جدید سائنسی تربیت فراہم کی جائے۔ سعودی نظام سائنسی اعتبار سے قطعی ناقص ہے۔ کوئی ایسا بندوبست کیا جائے کہ وہ جدید سائنسی طریقوں کو اپنا لیں تاکہ سارا مسئلہ حل ہو جائے‘‘۔
اس حوالے سے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کا کہنا ہے کہ ’’رویت ہلال کا مسئلہ ہمارے ہاں متنازع بنادیا گیا ہے۔ عید ایک عبادت ہے اور اس عبادت کو شریعت کے مطابق کرنا چاہئے۔ یہ بات مشہور ہے کہ خیبر پختونخواہ میں ایک دن پہلے عید ہوتی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ہمارے ہاں چاند دیکھ کر روزہ رکھا جاتا ہے اور چاند دیکھ کر ہی عید کی جاتی ہے۔ البتہ ہم فلکیات کی موشگافیوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ ان کو ممد و معاون سمجھتے ہیں، ان کا تعاون لیتے ہیں، لیکن ان کو مدار شریعت نہیں سمجھتے۔ صحاح ستہ میں 29 احادیث میں حکم دیا گیا ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔ ہمارے ہاں شب التماس ہوتی ہے، جس میں علمائے کرام جمع ہوتے ہیں۔ ان علمائے کرام کے سامنے جو بھی کوئی گواہی لے کر آتا ہے وہ باقاعدہ اپنے علاقے کے پیش امام کے ساتھ آتا ہے۔ ہم اس کی گواہی کو فقہی قواعد کے مطابق لیتے ہیں۔ اور اگر شہادت فقہی قواعد پر پورا اترتی ہو تو اس کو مان لیتے ہیں‘‘۔ ایک سوال پر مفتی شہادب الدین پوپلزئی کا کہنا تھا کہ ’’چاند کی رویت کے حوالے سے ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے اس حوالے سے سنجیدہ کوششیں کی گئی ہیں۔ اگر اس حوالے سے مضبوط حکمت عملی بنائی جائے جو خلاف شریعت نہ ہو تو ہم اس کو ماننے کے لئے تیار ہیں‘‘۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More