روزنامہ ’’امت‘‘ کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ’’امت‘‘ عوام کے دل کی آواز ہے۔ مصائب اور مشکلات میں پھنسے ہوئے افراد کیلئے امید کی کرن اور ٹوٹے ہوئے دلوں کی ڈھارس ہے۔ میں گزشتہ ساڑھے بارہ برس سے امت میں لکھ رہا ہوں، میری کوشش ہوتی ہے کہ وطن عزیز پاکستان کے عوام جن پریشانیوں اور مسائل کے بھنور میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ ’’امت‘‘ کی پتوار کے ذریعے انہیں ساحل پر پہنچانے میں مدد کروں۔ ’’امت‘‘ کے قارئین گواہ ہں کہ ’’امت‘‘ کے پلیٹ فارم سے انتہائی پیچیدہ اور لاینحل مسائل حل ہوئے اور دل شکستہ کردینے والی افتاد دور ہوئی۔
جب میں کورنگی انڈسٹریل ایریا کے سیکٹر 10 سے گڈاپ ٹاؤن میں واقع ایک نئے ہاؤسنگ پراجیکٹ بحریہ ٹاؤن کے پریسنکٹ 10 اے میں شفٹ ہوا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عوام گلشن ملت کورنگی میں جو مصیبت جھیل رہے تھے، وہی مصائب کسی نہ کسی شکل میں بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں اور الائیٹز کو بھی چمٹنے والے ہیں۔ ان پریشانیوں کی شدت فزوں تر ہے، کیوں کہ ان کا شکار بحریہ ٹاؤن پرائیویٹ لمیٹڈ کے ہزاروں ملازمین کے ساتھ ساتھ ان گنت مزدور، کار دیگر اور چھوٹے بڑے بے شمار کنٹریکٹرز بھی ہیں۔ میں نے 24 جولائی 2018ء کو شہر سے چالیس میل پرے ایک نئی بستی میں گھر بسایا اور 8 دسمبر 2018ء کو مجھ پر آشکار ہوا کہ سب مایہ ہے۔ شہر کراچی کی آبادی تقریباً ڈھائی کروڑ نفوس سے اوپر ہے۔ شہر کا انفرا اسٹرکچر آبادی کے بے تحاشا دباؤ کو برداشت کرنے سے قاصر ہے۔ شہری مسائل انسانی طاقت سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ اب ناگزیر ہوتی یہ حقیقت چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ شہر کراچی سے بارہ نئی بستیاں بسائی جائیں، مگر سچ ہے کہ بستی بسانا کھیل نہیں۔ یہ بستے بستے بستی ہے۔ تاہم جب 2014ء میں سپر ہائی وے ایم نائن موٹروے پر ویرانے کو گلزار بنانے کی کوششیں شروع کی گئیں تو آس کا پنچھی پلکیں چھپکا کر حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ یہ غنچہ کیا حسین پھول بن رہا ہے۔ صرف چار سال کے مختصر عرصے میں ایک بنجر اور ویران علاقے کو صحرا سے گلستان میں تبدیل کر دیا گیا۔
میں نے ’’امت‘‘ میں 28 نومبر کو ایک کالم بعنوان ’’بحریہ ٹاؤن خوابوں کی سرزمین‘‘ لکھا۔ شاید اس جنت نظیر پرسکون اور آئیڈئیل بستی کو میری ہی نظر لگ گئی اور فلک کج رفتاری کی ایسی ستم ظریفی ہوئی کہ ایشیاء کی سب سے بڑی پرائیویٹ ہاؤسنگ اسکیم میں ترقیاتی کام بند ہوگئے ہیں۔ رنجیدہ دل اور کبیدہ خاطر ہوں کہ بحریہ ٹاؤن کا رنگ و روپ اجڑ رہا ہے، روشنی کی جگہ اندھیرے ہیں اورنور کے بجائے ظلمت کے ڈیرے ہیں آہ! حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے… عالمی سطح پر صف اول میں جگہ پانے والا ادارہ بحریہ ٹاؤن پرائیوٹ لمیٹڈ اپنے ہی وطن میں سسکیاں بھر رہا ہے۔
اس وقت بحریہ ٹاؤن کراچی کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں تمام تر ترقیاتی سرگرمیاں مفقود ہوچکی ہیں۔ اسٹریٹ لائٹس بند ہیں۔ ایک کروڑ سے زائد پودے سوکھ رہے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کراچی میں کیش ان فلو اور فنڈز کی ترسیل کی بندش سے اس کے پچاس ہزار ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں۔ اس میگا پراجیٹ سے منسلک لاکھوں محنت کشوں کے گھروں میں چولہے ٹھنڈے ہوگئے ہیں اور غریب مزدور فاقہ کشی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن سے جڑی ہوئی 55 انڈسٹریز زبردست بحران کا شکار ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کراچی سے ہزاروں محنت کش اور کاریگر جاچکے ہیں۔ میں مسجد ابوبکر صدیقؓ میں جمعے کی نماز پڑھتا ہوں، اس مسجد میں تقریبا چھ سو سے زائد نمازی ہوا کرتے تھے۔ اب یہ تعداد کم ہوکر صرف تیس رہ گئی ہے۔ یہی صورتحال مسجد عمرؓ، مسجد عاشق اور مسجد سرور کی بھی ہے۔ میں افسردہ اور غمزدہ ہوں کہ یہ صورتحال میرے لئے جگر پاش ہے۔
بحریہ ٹاؤن کراچی میں اندرون پاکستان اور سمندر پار پاکستانیوں نے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر گھٹ رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ ہر روز مندی کے جال میں پھنستی ہے، ادائیگیوں کا توازن بگڑ چکا ہے۔ ہر عالمی معاشی فورم پر ہمارا نام ڈیفالڈرز کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ ان حالات میں سمندر پار پاکستانی ہی وہ ذریعہ ہیں جو وطن پاک کو اقتصادی بحران سے نکال سکتے ہیں، مگر بحریہ ٹاؤن پرائیویٹ لمیٹڈ کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو دیکھ کر ان کا اعتماد بری طرح مجروح ہوا ہے۔ خون پیسنے کی حلال ذرائع سے حاصل کی ہوئی کمائی اور جمع پونجی بحریہ ٹاؤن کراچی کے معاشی بحران میں ڈوب رہی ہے۔ ایسی صورت میں انہوں نے ترسیلات زر کا سلسلہ روک دیا ہے، نئی بستی کو بسنے سے پہلے ہی بادسموم نے خزاں رسیدہ بنا دیا ہے… حسرت ان غنچوں پہ ہے، جو ’’بن کھلے مرجھا گئے‘‘ کے مصداق بحریہ ٹاؤن کراچی اجڑ رہا ہے۔ ہر طرف تاریکی اور سناٹا ہے، یہاں بسنے والے گھرانے خوف و ہراس اور اندیشوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی سے جڑی ہوئی تمام قانونی پیچیدگیوں کو ہنگامی بنیادوں پر دور کر کے اس بستی کو باغ و بہار سے مالا مال کردیا جاتا، مگر اس کے مسائل، مشکلات اور مصائب کو دور نہیں کیا جا رہا اور اس پھول کو شاخ نازک پر کھلنے سے پہلے ہی مسلا جا رہا ہے۔
یاد رکھئے گا کہ شہر کراچی اب آبادی کا مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔ لازمی ہے کہ شہر سے باہر ویران اور بنجر علاقوں میں نئی بستیاں بسائی جائیں۔ ’’کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد‘‘ کو نصب العین بنایا جائے اور پورے پاکستان میں ٹاؤن پلاننگ کے جدید اصولوں کے تحت نئے پراجیکٹس شروع کئے جائیں۔ بحریہ ٹاؤن کراچی بالعموم پاکستان اور بالخصوص کراچی کے عوام کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ اس کی تعمیر و ترقی سے لاکھوں افراد کا روزگار اور چادر اور چار دیواری کا تقدس جڑا ہوا ہے۔ اس عظیم الشان منصوبے سے وفاقی اور صوبائی حکومت کے ریونیو میں بے تحاشا اضافہ ہوسکتا ہے۔
میں تمام قومی سیاسی جماعتوں، وفاقی حکومت اور گورنمنٹ آف سندھ کے دردمند اور دلسوز نیابت کاروں سے گزارش کرتا ہوں کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے اسٹیک ہولڈرز کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے مظلوم الاٹیز بحریہ ٹاؤن کراچی کے پریشان رہائشیوں، ملازمین اور ہزاروں بے روزگار و پسماندہ محنت کشوں کی داد رسی فرمائیں۔ حق تعالیٰ آپ کو اس کار خیر کی جزا عطا فرمائیں گے۔
٭٭٭٭٭
Next Post