ہمارے سیاستدانوں کے کتنے رنگ ہیں اور ہر رنگ وہ کس طرح صرف ذاتی فائدے کے لئے ہی اختیار کرتے ہیں، اس کا اندازہ آپ پی پی پی قیادت کے طرز عمل سے لگا سکتے ہیں۔ چند روز قبل تک کیا بڑھکیں ماری جا رہی تھیں، پانچ برس بعد سندھ کے حقوق پر اچانک ڈاکے نظر آنے لگے تھے، پانی کی قلت کی یاد ستانے لگی تھی، آئینی اداروں کے کردار یاد کرائے جانے لگے تھے۔ ہر پی پی رہنما کو بھونپو ہاتھ میں دے کر حکومت اور جے آئی ٹی کے خلاف آوازیں لگانے کی ڈیوٹی پر لگا دیا گیا تھا۔ رضا ربانی جیسے ’’اصولی‘‘ سیاستدان بھی ای سی ایل ضوابط میں ترامیم پیش کرنے پر لگے ہوئے تھے، لیکن سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد جیسے ہی مہلت ملتی نظر آئی، بلاول کو کلین چٹ کا عندیہ ملا، لگتا ہے پی پی پی کا سارا موسم ہی بدل گیا، ہر چیز ہری ہری نظر آنے لگی۔ گزشتہ تین روز سے نہ تین سال والوں کی باتیں سنائی دیں، نہ انصاف والوں کو للکارنے والی آوازیں بلند ہوئیں۔ سندھ کے مسائل تو بس ایک چٹکی میں ہی محسوس ہوتا ہے حل ہوگئے ہیں ،اس لئے نہ وسائل کی باتیں اور نہ لوڈشیڈنگ کا رونا۔ اس طرز عمل سے پھر ثابت ہو گیا کہ ہمارے سیاستدان اپنے ذاتی مقاصد کے لئے کس طرح لوگوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ان کے احتساب کی باری آئے تو انہیں جمہوریت خطرے میں نظر آنے لگتی ہے، کیوں کہ یہ اپنی ذات کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں۔ ان کے غلط کاموں پر پکڑ کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ قومی سے فوراً لسانی روپ دھار لیتے ہیں اور صوبائی کارڈ کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔
یہ بات تو طے ہو گئی کہ پی پی پی قیادت کو کم از کم دو ماہ کی مہلت مل گئی ہے، بلاول کی حد تک معاملہ ختم ہوتا بھی نظر آرہا ہے، لیکن اگر کوئی چاہے بھی تو شاید باقیوں کو زیادہ دیر تک رعایت دینا اس کے لئے ممکن نہیں ہوگا، کیوں کہ یہ رعایت عوام کا نظام پر اعتماد مکمل ختم کرکے ہی دی جاسکتی ہے اور ایک بار عوام کا اعتماد جو گزشتہ برسوں میں اداروں پر بنا ہے، وہ ختم ہوگیا تو پھر آپ طویل عرصے کے لئے استحکام کو بھول جائیں، اعتماد کی جگہ بد اعتمادی نے لے لی، وہ حلقہ بھی اداروں سے دور ہو گیا، جو ان کے ساتھ کھڑا ہے، تو آپ برسوں پیچھے چلے جائیں گے، پرویز مشرف دور کی پوزیشن پر، اس وقت تو پھر معاملہ پرویز مشرف کی ذات تک محدود ہونے کی وجہ سے اعتماد کی بحالی کا عمل جلد شروع ہو گیا تھا، اب کی بار ایسا ہوا تو قوم سے اعتماد کا رشتہ دوبارہ قائم کرنا بڑی آزمائش بن جائے گی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے پی پی پی قیادت کے معاملے میں عبوری ریلیف پر سوشل میڈیا پر جس طرح ردعمل دیکھنے میں آیا ہے، اس سے آپ کسی نئے این آر او کی صورت میں آنے والے عوامی جذبات کے طوفان کا کچھ کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں، فیصلہ عدالت کا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کی اکثریت کے لئے اسے قبول کرنا مشکل ہوا ہے۔ بلاول کو چھوڑنے پر سوال اٹھائے گئے ہیں کہ اگر وہ بچے ہیں تو پھر مریم نواز بھی تو کسی کی بچی ہے، پھر سندھ کی قیادت کے ساتھ رعایت اور پنجاب کی قیادت کو رگڑا دینے کی باتیں بھی کی گئیں، جو عام آدمی کو متاثر بھی کرتی ہیں، اسی لئے اسلام میں انصاف کا حکم دیا گیا ہے اور ہدایت کی گئی ہے کہ انصاف کرتے ہوئے کسی کا عہدہ، رتبہ یا ولدیت نہ دیکھی جائے، کیوں کہ یہ امتیاز شروع ہو جائے تو پھر معاشروں سے سکون اٹھ جاتا ہے، ریاستیں انصاف کی بنیاد پر ہی چل سکتی ہیں، بے انصافی کے نظام کا نتیجہ وہی ہوتا ہے، جو آج ہم بھگت رہے ہیں، اگر ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی ہم ملکوں ملکوں پیسوں کے لئے گھوم رہے ہیں، تو اس کی سب سے بڑی وجہ این آر اوز ہیں، جو ہماری ریاست دیتی رہی ہے۔ ان این آر اوز کی وجہ سے سیاست میں مافیا طرز کے لوگ بھی آبیٹھے ہیں، یہاں اپنے ذاتی مفاد ات کے لئے ریاست کو بلیک میل کرنے میں بھی عار نہیں سمجھی جاتی۔
سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کے بعد پی پی پی رہنما خوشیاں مناتے نظر آئے، انہوں نے ن لیگ کی طرح پانامہ کیس میں جے آئی ٹی بنانے کے عدالتی فیصلے پر مٹھائیاں تو تقسیم نہیں کیں، لیکن یہ واضح ہے کہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کا دبائو کام کر گیا ہے، ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس مہلت کو وہ مستقل رعایتی پیکیج میں بدلوانے کے لئے کوششیں تیز کریں گے۔ صوبائی کارڈ پر اپنا انحصار بڑھائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے معاملات بہتر بنانے کے لئے مختلف امور پر تعاون کی پیشکشیں بھی کریں گے۔ پس پردہ رابطے کئے جائیں گے، جس میں پی پی پی قیادت ماسٹر ہے۔ اب یہ ریاست کا امتحان ہوگا کہ وہ اس صورت حال سے کیسے نمٹتی ہے، لیکن بات پھر وہی ہے کہ جے آئی ٹی کی اتنی مضبوط اور شواہد کے ساتھ پیش کی گئی رپورٹ کے بعد این آر او کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا ردعمل بہت زیادہ ہوگا، پھر معاملہ پی پی پی قیادت تک محدود نہیں رہے گا، بالکل ایسے ہی جیسے پرویز مشرف نے این آر او تو پی پی پی کی قائد بینظیر بھٹو کے ساتھ کیا تھا، لیکن اس کے بعد وہ نواز شریف کو بھی ملک آنے سے نہیں روک پائے تھے۔ اب کی بار بھی پی پی پی کو رعایتی پیکیج دیا گیا، تو ن لیگ کو محروم رکھنا بھی ممکن نہیں ہوگا اور پھر این آر اوز کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگا۔ لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا اور ہم پھر 2007ء میں کھڑے ہوں گے۔ ان برسوں میں دی گئی قربانیاں ضائع ہو جائیں گی، پھر شاید ہمیں دوبارہ سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ اس لئے یہ مہلت صرف پی پی پی قیادت کے لئے ہی نہیں ہے، بلکہ ریاستی اداروں کے لئے بھی یہ مہلت ہے کہ وہ انصاف کی بالادستی قائم کرنے کے لئے لائحہ عمل بنائیں۔ ایسا لائحہ عمل جس میں کسی کا بچہ ہونا کوئی معنی نہ رکھتا ہو، جس میں کوئی ریاست کو بلیک میل کرنے کی جرأت نہ کر سکے، جس میں انصاف کی لاٹھی سب پر برابر چلتی نظر آئے۔ اگر اس مہلت سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر شاید ہمیں دوبارہ سنبھلنے کی مہلت بھی نہ مل سکے۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post