باطن کا نورکیسےملتا ہے

0

حضرت ابو محمد جریریؒ ممتاز روزگار بزرگوں میں سے گزرے ہیں اور آپؒ کو ظاہری و باطنی علوم پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ آداب طریقت سے بخوبی واقفیت کی بنا پر آپؒ خود فرماتے ہیں کہ میں نے ادب الٰہی کی وجہ سے کبھی خلوت میں بھی پائوں نہیں پھیلائے۔ آپ حضرت تستریؒ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔
مکہ معظمہ کے قیام کے دوران مکمل ایک سال تک محض عظمت کی وجہ سے نہ تو کبھی آپ نے دیوار سے ٹیک لگائی، نہ کسی سے بات کی، جب ابو بکر کتانیؒ نے سوال کیا کہ آپ یہ مشقتیں کیوں کر برداشت کرلیتے ہیں؟ فرمایا کہ صدق باطنی نے میری قوت ظاہری کو یہ قوت برداشت عطا کر دی ہے۔ مشہور ہے کہ آپ کی وفات کے بعد حضرت جنید بغدادیؒ کو آپ کا جانشین مقرر کردیا گیا تھا۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ کوئی شخص نماز عصر کے وقت بال بکھیرے اور برہنہ پا آیا اور وضو کر کے نماز عصر ادا کرنے کے بعد نماز مغرب تک سر جھکائے بیٹھا رہا۔ پھر جب میں نے نماز مغرب شروع کی تو وہ بھی نماز پڑھ کر پھر سر جھکا کے بیٹھ گیا۔ اتفاق سے اسی رات خلیفہ کے یہاں صوفیا کی دعوت تھی اور جب اس شخص سے دعوت میں چلنے کیلئے کہا گیا تو اس نے جواب دیا کہ مجھے خلیفہ کے صوفیا سے کوئی سروکار نہیں، لیکن اگر تم مناسب تصور کرو تو میرے لئے تھوڑا سا حلوہ لیتے آنا۔
آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو غیر مسلم تصور کرتے ہوئے اس کی جانب کوئی توجہ نہیں کی اور جب دعوت میں واپسی پر دیکھا تو پہلی ہی سی حالت میں سر جھکائے بیٹھا ہوا ہے، پھر اسی شب میں نے حضور اکرمؐ کو خواب میں دیکھا کہ آپ کہ دائیں بائیں جانب حضرت ابراہیمؑ اور حضرت موسیٰؑ ہیں اور ان کے علاوہ سو انبیائے کرامؑ اور بھی ہیں، لیکن جب حضورؐ کے سامنے حاضر ہوا تو آپؐ نے منہ پھیر لیا اور جب میں نے سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ ہمارے ایک محبوب نے تجھ سے حلوہ طلب کیا، لیکن تو نے اس کو نظر انداز کر دیا۔
اس خواب کے بعد جب میں بیدار ہوا تو دیکھا کہ وہ شخص خانقاہ سے باہر نکل رہا ہے اور جب میں نے آواز دے کر کہا کہ ٹھہر جائو، میں ابھی تمہاری خدمت میں حلوہ پیش کرتا ہوں تو اس نے جواب دیا کہ اب تجھے حلوے کا خیال آیا۔ اس سے پہلے یہ خیال کیوں نہیں آیا۔ یہ کہہ کر وہ نہ جانے کس طرف کو نکل گیا اور تلاش بسیار کے باوجود آج تک وہ نہیں مل سکا۔
بغداد کی مسجد جامع میں ایک ایسے بزرگ قیام پذیر تھے، جو سدا ایک ہی لباس زیب تن کئے رہتے تھے اور آپ نے جب وجہ پوچھی تو بتایا کہ ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ ایک جماعت نہایت نفیس لباس میں ملبوس جنت میں دستر خوان پر بیٹھی ہوئی ہے، لیکن جب میں بھی وہاں بیٹھ گیا تو ایک فرشتہ نے کھینچ کر مجھے اٹھاتے ہوئے کہا کہ تو اس جگہ بیٹھنے کے قابل نہیں، کیونکہ یہ سب وہ بندے ہیں جنہوں نے تاحیات ایک ہی لباس استعمال کیا ہے، چنانچہ اس دن سے میں نے بھی ایک لباس کے سوا کبھی دوسرا لباس نہیں پہنا۔
دوران وعظ کسی نوجوان نے آپ سے عرض کیا کہ دعا فرمایئے کہ میرا دل گم گشتہ واپس مل جائے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم لوگ تو خود اسی مرض میں گرفتار ہیں۔ فرمایا کہ عہد گزشتہ میں معاملہ دین پر موقوف تھا۔ دوسرے دور میں وفا پر۔ تیسرے دور میں مروت پر اور چوتھے دور میں حیا پر تھا، لیکن اب تو نہ دین ہے نہ حیا ہے اور نہ وفا ہے نہ مروت، بلکہ سب کا معاملہ ہیبت پر موقوف ہے۔ فرمایا کہ قلب کا حقیقی فعل قربت الٰہی اور اس کی صنعتوں کا مشاہدہ ہے۔ فرمایا کہ اتباع نفس کرنے والا قید ہے۔ پھر فرمایا کہ راحت نفس کے معاملے میں نعمت و محنت میں تفریق نہ کرنی چاہئے۔ فرمایا کہ شجر یقین کا ثمر اخلاص ہے۔ فرمایا کہ افضل ترین شکریہ ہے کہ بندہ خود کو ادائیگی شکر سے عاجز تصور کرتا رہے۔
ایک مرتبہ فرمایا کہ سلامتی ایمان درستی جسم اور ثمرہ دین تین چیزوں پر موقوف ہے، اول کفایت سے کام لینا، دوم نواہی سے احتراز کرنا اور سوم کم غذا کھانا، اس لئے کہ کفایت تو راستی باطنی کا باعث ہوتی ہے اور نواہی سے کنارہ کشی نور باطن کا سبب بنتی ہے اور قلت غذا نفس کو مشقت برداشت کرنے کے قابل بنا دیتی ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More