پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک پھر سرگرم

0

عمران خان
ایف آئی اے پر مالیاتی اسکینڈلز، منی لانڈرنگ اور حوالہ و ہنڈی کے کیسز کی تحقیقات کا دبائو بڑھنے کی وجہ سے وفاقی تحقیقاتی ادارے کی ذمہ داریوں میں شامل سب سے اہم انسانی اسمگلنگ کی وارداتوں پر قابو پانے کیلئے اسمگلروں کے خلاف کارروائیاں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ ملک بھر سے 130 مطلوب انسانی اسمگلر اپنے سب ایجنٹوں کے ذریعے 18 راستوں کے ذریعے انسانی اسمگلنگ کی وارداتیں کر رہے ہیں۔ کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ، لاہور ایئرپورٹ، اسلام آباد ایئرپورٹ کے علاوہ بلوچستان سے ایران اور عمان جانے والے 12 زمینی اور سمندری راستے انسانی اسمگلنگ کے لئے استعمال کئے جارہے ہیں۔ جن میں چمن، گلستان، تافتان، نوشکی، چاغی، پنچگور اور تربت جیسے علاقے شامل ہیں۔ اسمگلروں کی جانب سے تین طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔ زمینی یا سمندری راستے سے ایران اور عمان کے ذریعے انسانی اسمگلنگ کرنا، جعلی دستاویزات بنواکر ایئرپورٹس سے فضائی راستے کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنا اور پاکستان سے اصل وزٹ ویزوں پر قانونی طریقے سے دبئی، ملائیشیا، انڈونیشیا اور ترکی لے جاکر وہاں سے جعلی ویزے لگواکر آگے دیگر ممالک میں منتقل کرنے جیسی وارداتیں شامل ہیں۔ انسانی اسمگلروں نے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کو راستے میں قتل کرنا اور اغوا برائے تاوان جیسی وارداتیں بھی شروع کر دی ہیں۔
2018ء میں ایف آئی اے کی جانب سے پاکستان سے ہونے والی انسانی اسمگلنگ کو روکنے کیلئے انسانی اسمگلنگ کیلئے روایتی راستے میں آنے والے تمام ممالک میں ایف آئی اے حکام کی جانب سے خصوصی کائونٹرز قائم کئے گئے، جن میں ایران، ترکی، یونان، برطانیہ وغیرہ شامل ہیں۔ مقصد یہ تھا کہ ان ممالک کے حکام کی معاونت سے انسانی اسمگلروں کے نیٹ ورک کو توڑا جاسکے۔ تاہم انسانی اسمگلروں کی جانب سے بھی صورت حال کو بھانپ لیا گیا اور انہوں نے متبادل روٹس کا انتخا ب کرنا شروع کردیا۔ چونکہ انسانی اسمگلروں کی جانب سے بیرون ملک جانے کے خواہشمندوں کو جعلی سفری دستاویزات پر پاکستان سے براہ راست امریکہ او ر یورپی ممالک بھجوانے میں مشکلات کا سامنے کرنا پڑ رہا تھا اور ان ممالک میں امیگرنٹس قوانین سخت ہوگئے تھے، لہذا انسانی اسمگلنگ کیلئے سابق روسی ریاستوں اور افریقی ریاستوں کو استعمال کرنا شروع کردیا گیا۔ جہاں پر پاکستانی باشندوں کیلئے امیگریشن قوانین میں قدرے نرمی ہے۔ انسانی اسمگلر اس وقت جعلی سفری دستاویزات پر لوگوں کو برطانیہ بھجوانے کیلئے سابق روسی ریاستوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ امریکہ اور کینیڈا بھجوانے کے لئے چھوٹی چھوٹی افریقی ریاستوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے بقول گزشتہ عرصہ میں درج ہونے والے مقدمات میں ایسے افراد ڈی پورٹ ہو کر کراچی پہنچے ہیں، جو اسی طریقے سے یورپی ممالک جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان افراد سے تفتیش کے دوران 4 بڑے انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروپوں کے کوائف سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے دو گروپ غیر ملکی اور دو گروپوں کا تعلق پنجاب اور خیبر پختون کے علاقوں سے ہے۔ پہلا گروپ چوہدری حبیب کی سر براہی میں کام کر رہا ہے۔ جس کا تعلق ہری پور کے علاقے سے ہے۔ اس کے سب ایجنٹ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور کراچی میں بھی اس کی ٹریول ایجنسی کام کر رہی ہے۔ اس گروپ کے سب ایجنٹ نہ صرف پاکستان، بلکہ افریقی ملک گھانا اور جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹائون میں بھی موجود ہیں۔ اس گروپ میں افریقی باشندے بھی شامل ہیں۔ یہ افریقی باشندے بیرون ملک جانے کے خواہشمند افراد کے پاسپورٹ اکٹھے کر کے لے جانے کیلئے کراچی آتے جاتے رہتے ہیں۔ ذرائع کے بقول اس گروپ کا ایک مرکزی کردار ’’کاش‘‘ نامی شخص کینیڈا میں بھی موجود ہے، جس کا تعلق بھارت سے ہے۔ دوسرا گروپ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے ملک منیر کا ہے۔ جس کے سب ایجنٹ پاکستان کے مختلف شہروں کے علاوہ یوکرائن، ترکی اور برطانیہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس گروپ کے پاس بڑی تعداد میں جعلی برطانوی پاسپورٹ بھی موجود ہیں، جن کے ذریعے اس گروپ کے ارکان پاکستانی باشندوں کو برطانوی شہری ظاہر کر کے یو کرائن، ترکی اور دیگر ممالک سے برطانیہ بھجوا دیتے ہیں۔ چوہدری حبیب کے سب ایجنٹ جن افراد سے یورپی ممالک بھجوانے کیلئے 8 سے 10 لاکھ روپے وصول کرتے ہیں، ان سے پاسپورٹ لے کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور بعد ازاں گھانا اور کیپ ٹائون میں موجود اس گروپ کے افریقی کارندے کراچی آکر یہ پاکستانی پاسپورٹ اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں۔ بعد ازاں ان پاسپورٹس کے ذریعے گھانا اور کیپ ٹائون کی ٹریول ایجنسیوں کے ذریعے ان پاکستانیوں کے کیس کینیڈا اور امریکی ریکروٹمنٹ کمپنیوں کو ارسال کر دیئے جاتے ہیں۔ ان کمپنیوں میں کینیڈا کی سی فوڈ اور کین ریکروٹمنٹ کمپنیاں شامل ہیں۔ یہ کیسز انہی دو مخصوص کمپنیوں کو ارسال کئے جاتے ہیں۔ بعد ازاں کینیڈا میں موجود کاش نامی شخص چوہدری حبیب سے رابطہ کر کے ان کیسز کی تصدیق کرتا ہے اور گھانا و کیپ ٹائون کی ان ٹریول ایجنسیوں کو ہدایت کے لیٹر جاری کرتا ہے کہ جن پاکستانی افراد کے ایمپلائمنٹ کیسز بھیجے گئے ہیں، ان کو فوری طور پر تمام سفری دستاویزات جاری کی جائیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ شخص ان کیلئے ’’نان ٹیررسسٹ سرٹیفیکٹس بھی جاری کرواتا ہے۔ جب ان افراد کی تمام دستاویزات تیار ہو جاتی ہیں تو پاسپورٹ لے کر جانے والے افریقی یہ پاسپورٹ لے کر کراچی واپس آجاتے ہیں اور ساتھ ہی ان افراد کے افریقی ممالک کے ویزے بھی آجاتے ہیں۔ پھر ان افراد کو پہلے افریقی ریاستوں میں بھجوا یا جاتا ہے، جہاں سے یہ پاکستانی افراد کینیڈا اور دیگر ممالک پہنچ جاتے ہیں۔ ملک منیر کے گروپ کے کارندے بھی یورپی ممالک یعنی فرانس، اسپین، جرمنی اور برطانیہ بھجوانے کے لئے یہی طریقہ استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان یورپی ممالک کے جعلی پاسپورٹ بنوا رکھے ہیں اور یہ پاسپورٹ اور دیگر شناختی دستاویزات یوکرائن، آسٹریا، ترکی، تاجکستان، ترکمانستان وغیر میں موجود ان کے سب ایجنٹوں کے پاس ہوتی ہیں۔ کراچی سے یورپی ممالک جانے والے افراد کو 10 سے 12 لاکھ روپے وصول کر کے اصل سفری دستاویزات پر یو کرائن، آسٹریا، ترکی، تاجکستان اور ترکمانستان وغیربھجوایا جاتا ہے، جہاں سے ان افراد کو ہدایت دی جاتی ہے کہ اب وہ اپنی پاکستانی شناختی دستاویزات کے بجائے ان ممالک کی دستاویزات استعمال کریں، جہاں ان کو جانا ہے۔ ساتھ ہی ان کو برطانیہ اور دیگر ممالک کے جعلی پاسپورٹ فراہم کردیئے جاتے ہیں اور ٹکٹ کا بندو بست بھی کر دیا جاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق انسانی اسمگلروں نے آہستہ آہستہ دو طریقے ایسے دریافت کر لئے، جن کے ذریعے وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔ ان میں سے ایک طریقہ اسٹوڈنٹ ویزوں کی آڑ میں لوگوں کو بیرون ملک بھجوانا اور دوسرا طریقہ ایسے ممالک کے ذریعے بیرون ملک جانے والے خوہشمندوں کو یورپی ممالک میں بھجوانا جہاں پر پاکستانی باشندوں کیلئے امیگریشن کے قوانین نسبتاً نرم ہیں اور ان ممالک کے ٹریول ایجنٹوں اور باشندوں کیلئے یورپی ممالک کے امیگریشن قوانین بھی سخت نہیں ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پہلے طریقہ کار کیلئے انسانی اسمگلر مختلف مقامات پر اوورسیز اسٹوڈنٹ ویزہ کنسلٹنٹ کے دفاتر کھول کر بیٹھ گئے ہیں اور جعلی تعلیمی اور سفری دستاویزات کے ذریعے لوگوں کو برطانیہ، امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں بھجوارہے ہیں۔ دوسرے طریقہ کار کیلئے انہوں نے ایسے ممالک کو تلاش کیا جہاں پاکستانی باشندوں کیلئے امیگریشن قوانین نرم ہیں۔ ان میں سابق روسی ریاستیں تاجکستان، ترکمانستان اور آذر بائجان کے علاوہ افریقی ممالک، جنوبی افریقہ، گھانا، صومالیہ اور نائجیریا وغیرہ شامل ہیں۔ ان ممالک میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے انسانی اسمگلروں نے اپنے سب ایجنٹ پھیلا دیئے ہیں اور وہاں کے مختلف شہروں میں مقامی ٹریول ایجنٹوں سے مضبوط تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ اس وقت جو طریقہ کار زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے، اس کے مطابق انسانی اسمگلر یورپی ممالک جانے والے خواہشمندوں کو اصل سفری دستاویزات پر ان ممالک میں بھجوادیتے ہیں۔ پھر وہاں موجود اپنے سب ایجنٹوں کے ذریعے جعلی سفری دستاویزات اور ٹکٹ فراہم کرواتے ہیں، جس کے بعد یہ افراد یورپی ممالک کیلئے روانہ ہوجاتے ہیں۔ ذرائع کے بقول پانچ یا چھ ہزار ڈالر فی کس کے حساب سے پہلے لوگوں کو بلوچستان لے جایا جاتا ہے اور پھر وہاں سے ترکی، ایران اور یونان، جو یورپی یونین کے رکن ملک ہیں۔ لیکن اتنی بڑی رقم کے باوجود اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ مسافر اپنی منزل پر پہنچ جائے گا۔ اس طرح بے شمار افراد جعلسازوں کے ہتھے بھی چڑھ جاتے ہیں اور اپنی عمر بھر کی جمع پونجی لٹا بیٹھتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی سی) کے مطابق 2013ء میں پاکستان میں سرگرم جرائم پیشہ گروہوں نے انسانی اسمگلنگ کے ذریعے 927 ملین ڈالر کمائے تھے۔ پاکستان میں ہیومن ٹریفکنگ کا سرکاری ڈیٹا ایف آئی اے رکھتا ہے۔ اس سرکاری ادارے کی ایک ریڈ بک کے مطابق پاکستان میں 2014ء میں 141 گینگ موجود تھے، جن کی اکثریت گجرات اور گوجرانوالہ سے تعلق رکھتی تھی۔ اس وقت مجرموں کے دیگر منظم گروہوں میں بہت سے سیالکوٹ، راولپنڈی، منڈی بہاؤالدین اور آزاد کشمیر میں بھی فعال تھے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مجرموں کے ان 141 گروہوں میں قریب 7800 افراد شامل ہیں۔ جنہوں نے 8500 پاکستانیوں کو پچھلے سال مشرق وسطیٰ، یورپ اور افریقی ممالک میں اسمگل کیا۔ ایف آئی اے کے مطابق پچھلے پانچ برسوں میں پاکستان کی ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحدوں سے 61 ہزار سے زائد ایسے افراد کو پکڑا گیا، جنہیں بیرون ملک اسمگل کیا جا رہا تھا۔ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے عام راستوں کے طور پر چمن، گلستان، تافتان، نوشکی، چاغی، پنچگور اور تربت جیسے علاقوں کے نام لیے جاتے ہیں۔ ذرائع کے بقول انسانی اسمگلروں نے غیر قانونی طور پر خلیجی اور یورپی ممالک جانے کے خواہشمند پاکستانی تارکین وطن سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے نئے طریقے استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ ان میں سے بعض طریقے جان لیوا ہیں۔ اسی سبب غیر قانونی تارکین وطن میں شامل درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ایف آئی اے حکام کی جانب سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورک کے خلاف بھرپور کارروائیوں اور حکمت عملی اپنائے جانے کے دعووں کے باجود ان کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی اسمگلنگ میں کمی کے بعد سمندری راستے سے انسانی اسمگلروں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے اور انہوں نے زیادہ رقم کمانے کیلئے نئی وارداتیں بھی شروع کردی ہیں۔ ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ جن میں انسانی اسمگلروں کے ایجنٹ خیبر پختون، پنجاب، بلوچستان اور سندھ سے شہریوں کو یورپی اور خلیجی ممالک بھجوانے کیلئے 10 ہزار سے 15 ہزار ڈالر وصول کرکے انہیں بلوچستان کے ساحلوں پر لاوارث چھوڑ دیا۔ جبکہ کئی تارکین وطن کو عمان کے ساحلوں کے قریب گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ان وارداتوں میں عمانی بارڈر سیکورٹی گارڈز کے بعض حکام بھی اسمگلروں سے ملے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مسقط کی جیل میں سزا بھگت کر آنے والے تارکین وطن کی زبانی لرزہ خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ سینکڑوں تارکین وطن کو ترکی کے ساحلوں سے اغوا کرنے کے بعد پاکستان میں موجود ان کے اہلخانہ سے تاوان وصول کیا جانے لگا ہے۔ پاکستان کی افغانستان اور ایران کے ساتھ انتہائی طویل سرحدیں موجود ہیں، جو ان اسمگلروں کیلئے بہت مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More