نئے امیر کے لئے سراج الحق کے نام پر جماعت گومگو کا شکار

0

امت رپورٹ
جماعت اسلامی پاکستان کے نئے امیر کا انتخاب مارچ میں منعقد ہوگا۔ جماعت اسلامی کا آزاد الیکشن کمیشن مرکزی شوریٰ کی مشاورت سے امیر جماعت کیلئے تین رہنمائوں کے نام ارکان کو رہنمائی کیلئے سولہ جنوری کو پیش کرے گا۔ سراج الحق کے نام کے حوالے سے جماعت کے اندر گومگو کی کیفیت ہے۔ جماعت اسلامی کی جانب سے متحدہ مجلس عمل سے علیحدگی کے اعلان کو جماعت کے ارکان اور کارکنان بے وقت کی راگنی قرار دے رہے ہیں۔ بعض ارکان و کارکنان کے مطابق جماعت اسلامی کی انتخابی میدان میں شکست کی وجہ پالیسی اور ویژن کا فقدان ہے۔
جماعت اسلامی کے ذرائع سے حاصل معلومات کے مطابق جماعت اسلامی پاکستان کے نئے امیر کا انتخاب مارچ میں منعقد ہونا ہے، جس کے لئے تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ جماعت میں ہونے والے تمام انتخابات کی نگرانی جماعت اسلامی پاکستان کا آزاد الیکشن کمیشن کرتا ہے، جس کے سربراہ اسداللہ بھٹو ہیں۔ جماعت اسلامی کی روایات کے مطابق الیکشن کمیشن، مرکزی شوریٰ کی مشاورت سے جماعت کے ارکان کی رہنمائی کیلئے تین نام پیش کرتا ہے۔ یہ نام سولہ جنوری کو پیش کر دیئے جائیں گے۔ ان ذرائع نے بتایا کہ جماعت اسلامی کے کسی بھی عہدے کے لئے کوئی بھی امیدوار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے لئے کوئی مہم چلائی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر کے لئے پورے ملک کے تقریباً 37 ہزار ارکان ووٹ دینے کے حق دار ہوتے ہیں اور صرف ان ارکان کی رہنمائی کے لئے جماعت اسلامی کا الیکشن کمیشن مرکزی شوریٰ کی مشاورت سے تین نام پیش کرتا ہے۔ تاہم ارکان چاہیں تو وہ کسی کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے ذرائع کے بقول سابقہ انتخابات کو دیکھا جائے تو اب تک جن تین ارکان کے نام رہنمائی کے لئے پیش کئے گئے، انہی میں سے کوئی رکن جماعت اسلامی کا امیر منتخب ہوتا آیا ہے۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن سولہ جنوری کو تین ناموں کا اعلان کرے گا۔ ’’امت‘‘ کو جماعت اسلامی میں موجود بعض ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ، جماعت اسلامی صوبہ خیبر پختون کے سابق امیر پروفسیر ابراہیم، جماعت اسلامی صوبہ پنجاب کے سابق امیر حافظ محمد ادریس، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ محمد نعیم، جماعت اسلامی پنجاب کے رہنما اور سابق ترجمان امیرالعظیم اور ڈاکٹر وسیم اختر میں سے کوئی تین نام امیر کے انتخاب کیلئے شامل کئے جا سکتے ہیں۔ اس فہرست میں جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق کا نام بھی شامل ہے۔ تاہم جماعت اسلامی کے اندر ان کے نام پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی صوبہ خیبر پختون کے رہنما اور کارکنان ملک بھر بالخصوص مالاکنڈ ڈویژن اور دیر میں جماعت اسلامی کی انتخابی میدان میں شکست کا ذمہ دار سراج الحق کو ٹھہرا رہے ہیں۔ جماعت کے ارکان اور کارکنان کا کہنا ہے کہ سراج الحق کی غلط پالیسیوں کے سبب جماعت اسلامی صوبہ خیبر پختون میں عام انتخابات میں ہاری۔ جس میں سراج الحق کے من مانے فیصلے شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق انتخابات سے قبل ہی دیر میں جماعت اسلامی کے کارکناں میں بے چینی پائی جاتی تھی۔ جماعت اسلامی کے کئی رہنمائوں نے سراج الحق کو منع کیا تھا کہ وہ عام الیکشن میں حصہ نہ لیں، مگر انہوں نے پھر بھی حصہ لیا اور مایوسی اور بے چینی مزید بڑھی۔ اسی طرح متحدہ مجلس عمل کا قیام بھی جماعت اسلامی کے اندر ہمیشہ سے متنازعہ رہا ہے اور اس اتحاد میں شمولیت کی سخت مخالفت کی گئی۔
جماعت اسلامی میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں ایم ایم اے سے علیحدگی کے اعلان کو بھی جماعت کے رہنما، ارکان اور کارکنان شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور بے وقت کی راگنی کہہ رہے ہیں۔ ’’امت‘‘ سے جماعت اسلامی کے کئی کارکناں اور رہنمائوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی کا حالیہ مرکزی شوریٰ کا اجلاس موجودہ امیر کی مدت ختم ہونے سے پہلے متوقع طور پر آخری اجلاس تھا۔ جس میں روایات کے مطابق جماعت اسلامی کی شوریٰ کو صرف اور صرف نئے امیر کے انتخاب اور پانچ سالہ منصوبہ بندی کا جائزہ لینا چاہیے تھا۔ باقی معاملات نئی شوریٰ اور نئے منتخب ہونے والے امیر پر چھوڑ دینے چاہیے تھے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے کارکنان اور رہنمائوں کے مطابق پہلے چند سیٹیں بچانے کے لئے ایم ایم اے قائم کی گئی اور اس کے حق میں دلیلیں دی گئیں، اور اب ایک سال سے بھی کم وقت میں ایم ایم اے سے کنارہ کشی کرلی گئی اور اس کے حق میں بھی دلائل دیئے جارہے ہیں۔ ان ارکان و کارکنان کے مطابق دراصل جماعت اسلامی کا مسئلہ کارکنان، رہنما اور افراد کی قلت ہونا نہیں، بلکہ جماعت اسلامی کی ناقص پالیسی اور وژن کا فقدان ہے۔ اس وقت کوئی انتخابات کا ماحول ہے نہ ہی کوئی تحریک وغیرہ، پھر بھی عجلت میں ایم ایم اے سے علیحدگی کا اعلان سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس فیصلے سے دینی حلقوں میں بھی جماعت اسلامی کے حوالے سے کوئی اچھی رائے پیدا نہیںہوگی۔
جماعت اسلامی کے ترجمان کے مطابق، جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے پاس اختیار ہے کہ وہ کوئی بھی فیصلہ مشاورت سے کر سکتی ہے۔ ہر شوریٰ کے ایجنڈے میں کوئی بھی معاملہ موجود ہو، اگر اس میں کوئی دوسرا معاملہ زیر بحث لایا جائے تو اس پر بھی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ ترجمان کے مطابق شوریٰ کے حالیہ فیصلے میں کارکنان کی آرا کو مقدم رکھا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More