طالبان نے بے جا امریکی مطالبات پر مذاکرات منسوخ کئے

0

محمد قاسم
افغان طالبان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں سمیت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کی جانب سے بے جا مطالبات پر قطر میں ہونے والے امن مذاکرات منسوخ کئے۔ طالبان کا موقف ہے کہ بگرام میں امریکی فوجی اڈا اور موجودہ افغان حکومت قابل قبول نہیں۔ ذرائع کے مطابق اٹھارہ ماہ کے اندر تمام معاملات حل کرنے، امریکہ میں صدارتی الیکشن سے قبل افغان جنگ مکمل طور پر ختم کرنے اور افغانستان میں امریکہ کو کچھ اڈے دینے جیسے امریکی مطالبات کے بعد طالبان کے فیلڈ کمانڈرز نے مذاکرات کرنے والے طالبان رہنمائوں کو پیغام بھیجا ہے کہ ان شرائط پر وہ امریکہ کے ساتھ معاہدے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ کمانڈرز کا کہنا ہے کہ افغانستان کے 60 فیصد علاقے پر طالبان کا قبضہ ہے، جنگ جتنی طویل ہوگی امریکہ کو اتنی ہی جلد شکست ہوگی۔ سعودی عرب کے بعد قطر میں ہونے والے مذاکرات بھی منسوخ کئے جانے کے حوالے سے ’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق امریکہ نے تحریری تجاویز دی ہیں کہ افغان طالبان موجودہ افغان حکومتی سیٹ اپ، آئین اور امریکہ کو اڈے دینے پر رعایت دیں اور افغانستان کی جمہوری حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں۔ بصورت دیگر افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ ان شرائط کو رد کرتے ہوئے افغان طالبان نے قطر میں ہونے والے دو روزہ مذاکرات بھی منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ اٹھارہ برس سے جاری لڑائی آٹھ مہینے میں کس طرح ختم کرسکتے ہیں۔ اٹھارہ جون تک جنگ بندی اور افغان صدارتی الیکشن میں حصہ لینا طالبان کیلئے ممکن نہیں ہے۔ مذاکراتی عمل کے قریب رہنے والے افغان طالبان کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ طالبان کے فیلڈ کمانڈرز کو رضامند کئے بغیر امن معاہدہ ممکن نہیں ہے۔ جبکہ فیلڈ کمانڈروں نے پہلے ہی واضح کردیا ہے افغانستان میں امریکہ کو کوئی اڈہ نہیں دیا جائے گا۔ سینئر رہنما کے بقول طالبان ملک میں خانہ جنگی نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن محض خانہ جنگی کے خدشات پر امریکہ کو افغانستان میں اڈے رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ طالبان کے اہم رہنما اس جنگ کی نذر ہوچکے ہیں اور ان کے بہت سے حامی فیلڈ میں ہیں، جو ایسی شرائط پر کئے جانے والے کسی معاہدے کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ طالبان رہنما کے بقول طالبان قیدیوں کی رہائی، جنگ بندی اور امریکی فوج کے محفوظ انخلا پر بات ہو سکتی ہے۔ لیکن دیگر معاملات خصوصاً بگرام اڈے کو امریکہ کے حوالے کرنے پر کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ طالبان ذرائع کے مطابق ابتدائی بات چیت کرنے والوں کو بتادیا گیا تھا کہ افغان طالبان کسی صورت بھی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے، جس پر امریکہ سمیت تمام ممالک متفق ہو گئے تھے۔ لیکن اب امریکہ اور دیگر ممالک طالبان پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں۔ جبکہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کا مطلب اس ناجائز حکومت کو تسلیم کرنا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان حکومت سے مذاکرات کیلئے طالبان قیادت کو اپنے فیلڈ کمانڈرز کو راضی کرنا مشکل ہے۔ اس لئے ان امریکی تجاویز پر افغان طالبان مذاکرات نہیں کرسکتے۔ دوسری جانب امریکہ نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ زلمے خلیل زاد افغان طالبان رہنمائوں کے ساتھ اپنی ملاقات ملتوی کر رہے ہیں۔ جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے زلمے خلیل زاد کو پہلے ہی بتا دیا ہے کہ وہ امریکہ کی نمائندگی کریں اور افغان حکومت کی نمائندگی چھوڑ دیں۔ اگر وہ افغان حکومت کی نمائندگی کریں گے تو ان کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان کے فیلڈ کمانڈر طالبان کی شوریٰ سے زیادہ طاقتور ہیں اور ان کو راضی کئے بغیر مذاکرات میں پیشرفت نہیں ہوسکتی۔ اگر طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کیا جاتا ہے تو شمالی افغانستان کے صوبہ فاریاب، بدخشان، سرائے پل اور وسطی افغانستان کے صوبہ غزنی پر طالبان قبضہ کرلیں گے اور اس کی تیاریاں بھی مکمل کرلی گئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر مذاکرات ختم ہوئے تو حقانی نیٹ ورک افغان دارالحکومت کابل پر دھاوا بول دے گا۔ ذرائع کے بقول افغانستان کے اندر اب طالبان کو پہلے سے زیادہ عوامی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ ایران، روس، قطر اور ترکی کی جانب سے بھی افغان طالبان کی کھل کر حمایت کی جارہی ہے جس کی وجہ سے طالبان موسم سرما میں بھی جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی امکان ہے کہ افغان طالبان قطر، ترکی، روس یا ایران میں اپنی جلا وطن حکومت تشکیل دیدیں اور یہ ممالک اس حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیں۔ اگر ایسا ہوا تو افغانستان میں طاقت کا ایک نیا کھیل شروع ہو جائے گا، جو جنوبی ایشیا میں امن کیلئے تباہ کن ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین افغان مسئلے کا جلد از جلد حل چاہتا ہے جبکہ روس اور ایران، افغان طالبان کو داعش کے مقابلے میں مضبوط قوت بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ تاکہ امریکہ کے اچانک انخلا کے بعد طالبان کے علاوہ کوئی اور گروہ افغانستان میں جگہ نہ بناسکے ۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More