نئی دہلی/ تہران(امت نیوز)بھارت کے افغان طالبان سے رابطے کرانے کیلئے کیلئے ایران کود پڑا۔افغانستان سے ممکنہ امریکی انخلاکے بعدبھی مداخلت جاری رکھنے کیلئے نئی دہلی بے چین ہے۔تہران نے تعاون کا یقین دلادیا۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کے بعدطالبان اقتدارمیں آ سکتے ہیں، اس صورتحال میں اسلام آباد کوقدم جمانے سے روکنا ہوگا۔ افغان سرزمین کا پاکستان کیخلاف استعمال جاری رکھنے کیلئےبھارتی آرمی چیف نےبھی افغان مزاحمتی قوت سے مذاکرات کی خواہش ظاہر کردی۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کا کردار چاہتے ہیں ،لیکن ان کی بالا دستی قبول نہیں۔ بھارتی اخبارٹائمزآف انڈیا کے مطابق ایران نے بھارت کو افغان طالبان سے رابطے کے لئے تعاون کی پیشکش کردی ہے۔ ایران نے تسلیم کیاہے کہ اس کاافغانستان میں طالبان پراثرورسوخ ہے اوراسے بھارت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس حوالے سےحال ہی میں طالبان سے مذاکرات کی مثال دی گئی۔افغانستان سے ممکنہ امریکی انخلاکے بعدبھی مداخلت جاری رکھنے کی بے چینی ظاہر کرتے ہوئے بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کے بعد طالبان اقتدار میں آ سکتے ہیں، نئی صورتحال میں اسلام آباد کو افغانستان میں قدم جمانے سے روکنا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں بھارت نے ایران سے مدد طلب کی تھی۔ فی الحال بھارت افغان حکومت کی حمایت پرقائم ہے ،لیکن مستقبل کے امکانات کے لیے بھی تیاری کر رہا ہے۔ دریں اثنا افغان سرزمین کا پاکستان کیخلاف استعمال جاری رکھنے کیلئےبھارتی آرمی چیف نےبھی افغان مزاحمتی قوت سے مذاکرات کی خواہش ظاہر کردی۔ایک بیان میں جنرل بپن راوت نے کہا کہ اگر طالبان کوئی شرائط نہیں لگاتے تو ان سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔انھوں نے کہا کہ طالبان سے بات چیت خطے اور بھارت کےمفاد میں ہے۔جنرل راوت نے کہا کہ پاکستان افغانستان کو اپنے گھر کا پچھلا حصہ سمجھتا ہے ،اس لیے وہ افغانستان میں ایسی صورت حال چاہتا ہے ،جو پاکستان کے مفاد میں ہو۔بھارتی آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سوشل میڈیا پر پابندیاں عائد کی جانی چاہئیں۔ دہشت گردی کی فنڈنگ میں سوشل میڈیا کا بھی کردار ہے۔بھارتی اخبارکے مطابق یہ صورت حال پالیسی میں تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔قبل ازیں نئی دہلی طالبان کے ساتھ کسی مذاکرات کے حق میں نہیں تھا۔جبکہ بھارت کے دورے میں ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایران افغانستان میں طالبان کا کردار چاہتا ہے ،لیکن ان کی بالادستی نہیں چاہتا۔ علاوہ ازیں افغان صدر اشرف غنی کے خصوصی ایلچی عمر داودزئی نے بی بی سی کو انٹرویو میں کہا کہ پاکستان افغان امن مذاکرات میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔ نئی پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں، اور ایسے حالات میں پاکستان کے ساتھ ایشوز پر بات کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ بی بی سی کے مطابق افغان طالبان کے بعض ذرائع کا کہنا تھا کہ دوحہ میں منگل کو امریکہ کے ساتھ دو روزہ اجلاس کو متفقہ طور پر ملتوی کردیا گیا، لیکن افغان صدر کے ایلچی نے دعویٰ کیا کہ اس اجلاس کے بارے میں افغان حکومت یا امریکہ کو علم نہیں تھا۔عمر داودزئی کے مطابق امریکہ نے طالبان سے براہِ راست مذاکرات شروع کرنے سے پہلے افغان حکومت سے اجازت لی تھی اور تمام ملاقاتوں میں نہ صرف افغان حکومت بلکہ افغان سیاستدانوں کو بھی اس حوالے سے مطلع کیا تھا۔اس سوال کے جواب میں کہ طالبان افغان حکومت سے کیوں مذاکرات نہیں کرنا چاہتے، عمر داودزئی کا کہنا تھا کہ طالبان کی ایک عرصے سے یہ خواہش تھی کہ پہلے امریکہ سے بات چیت کرلیں اور بعد میں افغان حکومت کے ساتھ بیٹھیں گے۔ادھر ترجمان دفترخارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی افغانستان کے بارے میں پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔اسلام آباد سے جاری ہونے والے بیان میں ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے تمام افغان شہریوں کو مفت ویزے دیے جاتے ہیں اور افغانستان میں پاکستانی مشن روزانہ کی بنیاد پر تقریبا 3820 ویزے جاری کرتے ہیں، یہ افغان شہریوں کو کسی بھی ملک کی جانب سے جاری کئے جانے والے ویزوں میں سب سے زیادہ ہیں۔
٭٭٭٭٭