کراچی میں کمسن بچوں کو اغوا کرنے والے گروہ کا انکشاف

0

عمران خان
کراچی میں ایک ایسے گروہ کا انکشاف ہوا ہے، جو 7 سے 12 سال تک کے بچوں کو اغوا کرکے انہیں زیادتی کا نشانہ بناتا ہے اور نازیبا ویڈیو بناکر ان بچوں کو بلیک میل کرکے ان سے منشیات کی ترسیل کا کام بھی کراتا ہے۔ ملیر کے علاقے میں یہ مکروہ دھندا کرنے والے گروہ کے 7 کارندوں کی نشاندہی پولیس کو ہوچکی ہے۔ تاہم یہ کارندے مرکزی ملزم کی گرفتاری کے بعد روپوش ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کمسن بچوں کو اغوا کرانے والے درندے، اغواکار ملزمان کو فی بچے کے عوض 1500 سے 2000 روپے دیتے ہیں۔ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر انہوں نے کسی کو بتایا تو نہ صرف انہیں جان سے مار دیا جائے گا بلکہ ان کی بنائی گئی وڈیوز کو بھی عام کر دیا جائے گا۔ ذرائع کے بقول یہ دھمکیاں 10 سال سے زائد عمر کے بچوں کو دی جاتی ہیں۔ جبکہ چھوٹے بچوں کو زیادتی کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ گروپ گزشتہ چند ماہ کے دوران درجنوں بچوں کے اغوا کی وارداتیں کرچکا ہے۔ ان بچوں کو ملیر ندی میں قائم ایسے ویران ٹھکانوں پر چند گھنٹے کیلئے منتقل کیا جاتا ہے جوکہ منشیات فروشوں کی جانب سے بنائے گئے ہیں اور یہاں منشیات استعمال کرنے والے افراد بھی آتے ہیں۔
قائدآباد پولیس کے مطابق یہ نیٹ ورک اس وقت سامنے آیا، جب دو ہفتے قبل قائدآباد کے علاقے شیرپائو کالونی میں ایک ملزم کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ وہ ایک بچے کو اغوا کرکے علاقے سے باہر لے جاچکا تھا۔ تاہم بر وقت اطلاع ملنے پر پولیس نے چھاپہ مار کر مغوی بچے زین کو بازیاب کرکے ملزم کو گرفتار کرلیا۔ پولیس کے مطابق ملزم مراد ولد عدالت خان نے ابتدائی تحقیقات میں انتہائی ہولناک انکشافات کئے ہیں۔ ملزم نے بتایا کہ وہ چند ماہ میں 15 سے زائد کمسن بچوں کو اغوا کرچکا ہے۔ تمام مغوی بچوں کو پہلے خود اس نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور بعدازاں یہ بچے دو ملزمان سہیل اور کامران کو 1500 سے 2000 روپے میں فروخت کردیئے۔ یہ دونوں بھی ان بچوں کو زیادتی کا نشانہ بناتے اور پھر انہیں ملیر کے علاقے میں ہی کسی ایسی جگہ چھوڑ دیا جاتا، جہاں سے وہ خود اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے یا وہاں سے گزرنے والے لوگ انہیں گھروں تک پہنچا دیتے تھے۔
پولیس ذرائع کے بقول ملزمان یہ تمام کام ایک ہی دن میں نمٹا دیتے ہیں۔ کیونکہ اکثر والدین بچوں کے چند گھنٹوں تک گھروں سے غائب رہنے پر زیادہ تشویش کا شکار نہیں ہوتے اور نہ ہی پولیس سے رابطہ کرتے ہیں۔ تاہم کچھ واقعات میں ایسا ہوچکا ہے کہ ملزمان کے ہاتھوں اغوا کئے گئے بچوں کے والدین کی جانب سے ایک دن گزرنے پر تھانوں میں رپورٹس درج کرائی گئیں، جنہیں اب مذکورہ ملزم کے خلاف درج ہونے والے مقدمے میں شامل کرکے انہیں کیس فائل کا حصہ بنایا جارہا ہے۔
پولیس کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران ملیر کے مختلف تھانوں قائدآباد، شرافی گوٹھ، ملیر سٹی، شاہ لطیف ٹائون، سکھن، بن قاسم اور اسٹیل ٹائون تھانوں کی حدود میں واقع آبادیوں میں اغوا کی وارداتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا تھا۔ صرف میمن گوٹھ اور قائد آباد کے اطراف کے علاقوں سے ہی درجنوں کمسن بچے لاپتہ ہوئے تھے۔ تاہم یہاں پر گزشتہ دو ماہ میں ایسے کچھ ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے جو کئی بچوں کے اغوا اور زیادتی میں ملوث پائے گئے۔ اس کے بعد ان علاقوں میں بچوں کے اغوا کے واقعات میں ایک دم کمی واقع ہوئی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تاہم پھر بھی شہریوں کو بہت احتیاط کرنی چاہئے اور اپنے بچوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ پولیس ذرائع کے بقول ملزم مراد کی گرفتاری بہت اہم ہے، جس کی نشاندہی پر ملزمان سہیل اور کامران کے حوالے سے معلومات حاصل کی گئیں تو پتا چلا کہ یہ دونوں ملزمان ملیر ندی کے قریب واقع آبادی معین آباد کے رہائشی ہیں۔ ان ملزمان کا تھانہ شرافی گوٹھ اور تھانہ شاہ لطیف ٹائون کی انٹیلی جنس پولیس کے ذریعے سراغ لگانے کی کارروائی کی گئی تو معلوم ہوا کہ دونوں ملزمان کے ساتھ دیگر 5 ملزمان بھی ہوتے تھے اور یہ سات افراد پر مشتمل گروپ ہر وقت ساتھ رہتا تھا۔ تاہم جب سے ملزم مراد کو گرفتار کیا گیا ہے مذکورہ ملزمان علاقے سے غائب ہیں۔ ان کے موبائل نمبرز اور شناختی کارڈز کا ڈیٹا حاصل کیا جا رہا ہے تاکہ انہیں ملک میں کہیں بھی ٹریس کیا جا سکے۔ پولیس ذرائع کے بقول یہ ملزمان 10 سال سے 12 سال کے بچوں سے زیادتی کے بعد انہیں بلیک میل کرکے ان سے گلی کوچوں میں منشیات بھی سپلائی کراتے تھے۔ گرفتار ملزم مراد سمیت یہ ملزمان بچوں کو بہلا پھسلا کر یا اسلحے کے زور پر اغوا کرکے سنسان گلیوں اور علاقوں سے اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور انہیں شرافی گوٹھ، شاہ لطیف ٹائون، الفلاح، قائد آباد، سکھن اور عوامی کالونی تھانوں کی حدود میں موجود خالی پلاٹوں اور ملیر ندی میں قائم ٹھکانوں پر منتقل کردیتے تھے۔ پولیس کے مطابق مراد سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں اور اس کے موبائل فون کے ڈیٹا کے ذریعے بھی دیگر ملزمان کا سراغ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ملزم مراد بچوں کے ساتھ خود درندگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد جب انہیں دیگر ملزمان کو فروخت کرتا تھا تو وہ ذیادتی کے دوران ان کی وڈیو بھی بناتے تھے۔ پولیس ذرائع کے بقول ملزم مراد کے انکشافات کی روشنی میں پولیس نے کئی ایسے متاثرہ گھرانوں سے خاموشی کے ساتھ رابطہ کیا ہے جن کے بچوں کو اغوا کیا گیا تھا۔ تاہم کئی فیملیز کی جانب سے اس کارروائی میں قانونی طور پر شامل نہ ہونے کو ترجیح دیتے ہوئے پولیس کو منع کردیا گیا۔ لیکن کچھ ایسے گھرانے بھی ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو پولیس کو معلومات فراہم کرنے کیلئے آمادہ کیا، تاکہ ان علاقوں میں سرگرم اس قبیح جرم میں ملوث گروپ کے خلاف کارروائی کو آگے بڑھایا جاسکے۔ ذرائع کے مطابق کچھ بچوں نے ان ٹھکانوں کی بھی نشاندہی کردی ہے، جہاں پر ملزمان کی سرگرمیاں جاری تھیں اور یہاں پر منشیات فروشوں کے ڈیرے قائم ہیں جہاں سے اطراف کی آبادیوں میں منشیات سپلائی کرنے کے علاوہ منشیات استعمال کرنے والوں کو بھی اضافی رقم کے عوض چند گھنٹے رکنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ منشیات استعمال کرنے کے بعد یہ افراد نیشنل ہائی وے اور کورنگی صنعتی ایریا روڈ کی جانب سے چلے جاتے ہیں اور انہی میں سے کئی ملزمان نہ صرف اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں نشے کی حالت میں کرتے ہیں بلکہ بچوں کو اغوا کرنے کی وارداتیں بھی کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More