امریکہ میں حکومت کو ٹھپ ہوئے بیس دن ہو گئے ہیں اور بحران ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ یہ سارا جھگڑا میکسیکو کی سرحد پر دیوار سے متعلق ہے۔ صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کا راستہ روکنے کے لئے امریکہ کی جنوبی سرحد پر کنکریٹ کی دیوار تعمیر کریں گے۔ اس کا جو نقشہ صدر ٹرمپ نے کھینچا ہے، اس سے تو لگ رہا ہے کہ یہ دیوار اسی انداز کی ہوگی جو حضرت ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج کی چیرہ دستیوں سے دنیا کو محفوظ رکھنے کے لئے کھینچی تھی۔ اس دیوار کا ذکر سورئہ کہف میں ہے۔
نئے بجٹ میں امریکی صدر دیوار کی تعمیر کے لئے 5 ارب 70 کروڑ ڈالر مانگ رہے ہیں، جس کی ڈیموکریٹک پارٹی مخالف ہے۔ نومبر کے عام انتخابات میں ڈیموکریٹس نے ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) میں برتری حاصل کرلی ہے اور اب حزب اختلاف دیوار کے لئے بجٹ میں اتنی خطیر رقم مختص کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ دیوار نہیں تو بجٹ جہنم میں جائے۔ اسی کشکمش میں 21 دسمبر کو گزشتہ بجٹ میں منظور کی گئی رقم ختم ہو گئی اور اب نیا بجٹ منظور نہ ہونے کی وجہ سے صدر ٹرمپ کے پاس حکومت چلانے کے لئے پیسے نہیں۔ چنانچہ سرکاری ملازمین جبری تعطیل پر ہیں اور لازمی سروس کے جو اہلکار ڈیوٹی پر آرہے ہیں، وہ بھی بلاتنخواہ کام کر رہے ہیں۔
خبر گرم ہے کہ پریشاں حال ملازمین نے جمعہ کے بعد سے اس وقت تک گھر بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے، جب تک ان کی تنخواہ کا سلسلہ دوبارہ شروع نہیں ہو جاتا۔ کل صدر نے معاملے کے تصفیے کے لئے ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت کو وہائٹ ہائوس آنے کی دعوت دی، لیکن اسپیکر نینسی پلوسی کے مطابق صدر ٹرمپ نے میز پر مکّا مارتے ہوئے کہا کہ اگر دیوار کے پیسے نہیں تو میری بلا سے ٹھپ رکھو اس حکومت کو، جب تک چاہو۔ جس کے بعد وہ اٹھ کر چلے گئے۔
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ صدر کی ریپبلکن پارٹی بھی اب سرکاری ملازمین کے دبائو پر دلدل سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ تو ’’سایہ دیوار‘‘ سے اٹھنے کو تیار نہیں۔ چنانچہ ڈیموکریٹس کو 5 ارب 70 کروڑ ڈالر کے عوض کچھ ترغیبات پیش کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ جس میں بچپن میں غیر قانونی طور پر آنے والے افراد کو ایمیگریشن کی پیشکش، اس وقت السلواڈور اور لاطینی امریکہ سے آنے والے جو غیر قانونی تارکین وطن حراستی مراکز میں ہیں، انہیں ویزوں کا اجرا اور ماہرین کے عارضی ویزے یعنی H 2B پر عائد بندشوں میں نرمی شامل ہے۔ H-2B میں نرمی سے ہندوستان کےIT ماہرین کو فائدہ ہوگا۔
فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ:
٭… کیا ڈیموکریٹس کے لئے یہ پیشکش قابلِ قبول ہے؟
٭… اور سب سے بڑھ کر کیا تارکین وطن کے نام سے الرجک صدر ٹرمپ یہ تجویز سننے پر بھی تیار ہوں گے؟
بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ سخت پریشانی کا شکار سرکاری ملازمین کے لئے جلد راحت کا کوئی امکان نہیں کہ بقول نینسی پلوسی امریکی صدر نے اپنی انا کی تسکین کے لئے لاکھوں سرکاری ملازمین کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
سوڈان میں ہنگامے:
4 کروڑ نفوس پر مشتمل شمال مشرقی افریقہ کے ملک سوڈان میں حالیہ ہنگاموں کا آغاز 19 دسمبرکو اس وقت ہوا، جب حکومت نے روٹی کی قیمتوں میں 3 گنا اضافہ کر دیا۔ سوڈان ایک عرصے سے معاشی بحران میں مبتلا ہے۔ سوڈانی پونڈ گراوٹ کا شکار ہے اور افراطِ زر کی شرح 70 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری دونوں عروج پر ہیں۔
حسب روایت حکومت نے ان مظاہروں کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں دارالحکومت خرطوم میں ہونے والا مظاہرہ ایک ملک گیر تحریک بن گیا اور ’’اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے‘‘ کے مصداق قوت کے استعمال سے تحریک میں مزید شدت آگئی۔ اب مہنگائی و کرپشن کے ساتھ سوڈانی صدر عمر البشیر کو اقتدار سے ہٹانے کا مطالبہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں سے پورے ملک میں آزادی، امن اور انصاف کے ساتھ ’’ارحل یا بشیر‘‘ (بشیر چلے جائو) کے نعرے بھی گونج رہے ہیں۔ یادش بخیر اسی قسم کے نعرے عرب اسپرنگ کے دوران تیونس، لیبیا اور مصر میں بھی سنائی دیئے تھے، جس کے بعد وہاں کی حکومتیں تحلیل ہوگئیں۔ اب تک ان ہنگاموں میں پولیس والوں سمیت 40 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ ہزاروں گرفتار ہیں۔ جنرل عمر البشیر 1989ء سے سوڈان کے سربراہ ہیں۔
کل دارالحکومت میں ہزاروں لوگوں نے جنرل عمر البشیر کے حق میں مظاہرہ کیا، جس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل صاحب نے کہا کہ انہیں سوڈانیوں کی اکثریت نے صدر منتخب کیا ہے اور وہ چند شرپسندوں کے مطالبے پر مستعفی نہیں ہوں گے۔ انہوں نے مخالفین کو مشورہ دیا کہ وہ عوام کی زندگی اجیرن کرنے بجائے اگلے برس انتخابات کی تیاری کریں۔ حکومت کے حامیوں نے صدر کی حمایت میں مزید مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ صدر البشیرکی ریلی سے کچھ ہی فاصلے پر مخالفین نے ارحل یا بشیر کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ اب تک صدر کے حامیوں اور مخالفین میں تصادم کی کوئی خبر نہیں ملی، لیکن اگر دونوں طرف سے مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا تو تصادم، سر پھٹول اور خدا نخواستہ خانہ جنگی کی صورت حال بھی پیدا ہو
سکتی ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ صدر عمر البشیر مستعفی ہوکر قبل از وقت صدارتی انتخاب کی صورت میں اپنا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کر دیں۔
(نوٹ: اب آپ ہماری تحریریں اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post