جلیل القدر تابعی حضرت سیدنا ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں:
میں موت اور مرنے کے بعد ہڈیوں کی بوسیدگی کو یاد کرنے کے لئے کثرت سے قبرستان میں آتا جاتا تھا۔ ایک رات میں قبرستان میں تھا کہ مجھ پر نیند غالب آ گئی اور میں سو گیا تو میں نے خواب میں ایک کھلی ہوئی قبر دیکھی اور ایک کہنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا:
’’یہ زنجیر پکڑو اور اس کے منہ میں داخل کرکے اس کی شرمگاہ سے نکالو‘‘
تو وہ مردہ کہنے لگا: ’’یا رب عزوجل! کیا میں قرآن نہیں پڑھا کرتا تھا؟ کیا میں تیرے حرمت والے گھر کا حج نہیں کرتا تھا؟‘‘
پھر وہ اسی طرح ایک کے بعد دوسری نیکی گنوانے لگا تو میں نے ایک کہنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’تو لوگوں کے سامنے یہ اعمال کیا کرتا تھا، لیکن جب تو تنہائی میں ہوتا تو نافرمانیوں کے ذریعے مجھ سے اعلان جنگ کرتا اور مجھ سے نہیں ڈرتا تھا۔‘‘
(الزواجر عن اقتراف الکبائر جلد 1 صفحہ 24 دارالفکر)
مسجد نبویؐ کے امام و خطیب شیخ بعیجان نے منبر رسولؐ پر اپنے ایک خطبے میں فرمایا:
سائنسی انقلاب، نت نئی ٹیکنالوجی اور لوگوں کے لیے آفاقی رسائی کی وجہ سے ثقافتی کشمکش پیدا ہو چکی ہے اور سماجی رابطے کے ذرائع سے ہم اپنے گھرانوں میں نبرد آزما ہیں، سوشل میڈیا تک ہر چھوٹے بڑے، مرد اور عورت کو رسائی حاصل ہے، ان حالات میں مسلمان کو اپنی اور اپنے اہل خانہ کی تربیت کے لیے ایک عظیم صفت اور جلیل القدر عبادت کی اشد ضرورت ہے جو کہ انتہائی عظیم الشان عبادت اور نیکی ہے، وہ صفت خدا تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں اور گناہوں کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے، اس کی وجہ سے انسان حرام چیزوں سے بچ کر نیکیوں کی جانب راغب ہو سکتا ہے، بلکہ یہ ہر نیکی اور اچھے کام کی ترغیب دلاتی ہے، نیز اس کی وجہ سے دلوں میں رب تعالیٰ کی ہیبت بھی پیدا ہوتی ہے۔
وہ صفت یہ ہے کہ خلوت اور جلوت میں خشیت الٰہی اپنائیں، خدا کی قسم! یہ جتنی بلند خوبی ہے، اس کی ہمیں اتنی ہی ضرورت بھی ہے، اس سے اصلاح ہوتی ہے اور تقویٰ حاصل ہوتا ہے، یہ ایمان کی دلیل، نیز عقیدہ توحید اور اخلاص کا ثمر ہے، اس سے اخلاق پروان چڑھتا ہے، ایک مکمل انسان کی صورت میں زندگی گزارنے کے لیے انسان کو خشیتِ الٰہی کی عملاً ضرورت ہے۔
تنہائی میں خدا تعالیٰ سے ڈرنا صفتِ احسان کا تقاضا ہے اور احسان کا مطلب یہ ہے کہ تم خدا تعالیٰ کی بندگی ایسے کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ دل میں یہ احساس پیدا ہونا خشیتِ الٰہی کا لازم ہے کہ حق تعالیٰ ہمارا نگران ہے اور اس بات کا علم ہو کہ رب تعالیٰ ہر چیز پر گواہ ہے۔ لوگوں کے دلوں اور ان کے اعمال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے، وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے اور اس کے بندے جہاں بھی ہوں، وہ ان کے ساتھ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’تین آدمی سرگوشی کریں تو وہ چوتھا ہوتا ہے اور پانچ کریں تو وو چھٹا ہوتا ہے، اس سے کم لوگ کریں یا زیادہ لوگ، وہ ان کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ چاہے وہ جہاں بھی ہوں۔‘‘ (المجادلہ: 7)
اب جو شخص یہ جان لے کہ حق تعالیٰ اسے ہر جگہ دیکھ رہا ہے، اس کے ظاہر و باطن، خفیہ اور اعلانیہ ہر چیز سے واقف ہے اور یہی بات خلوت اور تنہائی میں بھی اجاگر رہے تو تنہائی میں بھی انسان گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ (خطبہ: 20 جمادی الثانی 1438ھ)
٭٭٭٭٭