سیدنا طلیحہ کا عجیب کارنامہ

0

سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ نے اپنے سپاہیوں میں سے 7 افراد لشکر فارس کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کیلئے بھیجے اور انہیں حکم دیا کہ اگر ممکن ہو سکے تو اس لشکر کے ایک آدمی کو گرفتار کر کے لے آئیں!! یہ ساتوں آدمی ابھی نکلے ہی تھے کہ اچانک انہوں نے دشمن کے لشکر کو سامنے پایا۔ جبکہ ان کا گمان یہ تھا کہ لشکر ابھی دور ہے۔
انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے واپس پلٹنے کا فیصلہ کیا۔ مگر ان میں سے ایک آدمی نے امیر لشکر سیدنا سعدؓ کی جانب سے ذمہ لگائی گئی مہم کو سر انجام دئیے بغیر واپس لوٹنے سے انکار کر دیا اور یہ چھ افراد مسلمانوں کے لشکر کی جانب واپس لوٹ آئے، جبکہ یہ ہیرو اکیلا ہی اپنی مہم کی ادائیگی کیلئے فارسیوں کے لشکر کی جانب بڑھتا چلاگیا۔ اس لشکر کے گرد ایک چکر لگایا اور اندر داخل ہونے کیلئے پانی کے نالوں کا انتخاب کیا۔ ان نالوں میں سے گزرتا ہوا فارسی لشکر کے ہراول دستوں تک جاپہنچا، جو کہ 40 ہزار لڑاکوں پر مشتمل تھے، پھر وہاں سے لشکر کے قلب سے گزرتا ہوا ایک سفید خیمے کے سامنے جا پہنچا، جس کے سامنے ایک بہترین گھوڑا بندھا کھڑا تھا، اس نے جان لیا کہ یہ دشمن کے سپہ سالار رستم کا خیمہ ہے۔ چنانچہ یہ اپنی جگہ پر انتظار کرتے رہے، یہاں تک کہ رات گہری ہو گئی۔
رات کا کافی حصہ چھا جانے پر یہ خیمہ کی جانب گیا اور تلوار کے ذریعے خیمہ کی رسیوں کو کاٹ ڈالا، جس کی وجہ سے خیمہ رستم اور وہاں موجود افراد پر گر پڑا۔ گھوڑے کی رسی کاٹی اور گھوڑے پر سوار ہو کر نکل پڑا۔ اس سے اس کا مقصد فارسیوں کی تضحیک اور ان کے دلوں میں رعب پیدا کرنا تھا۔ گھوڑا لے کر جب فرار ہوا تو گھڑ سوار دستے نے اس کا پیچھا کیا۔ جب یہ دستہ قریب آتا تو یہ گھوڑے کو ایڑ لگا دیتا اور جب دور ہو جاتا تو اپنی رفتار کم کر لیتا تاکہ وہ اس کے ساتھ آملیں، کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ ان میں سے ایک کو دھوکے سے کھینچ کر سیدنا سعدؓ کے پاس ان کے حکم کے مطابق لے جائے۔
چنانچہ 3 سواروں کے علاوہ کوئی بھی اس کا پیچھا نہ کر سکا۔ اس نے ان میں سے دو کو قتل کیا اور تیسرے کو گرفتار کر لیا! یہ سب کچھ تن تنہا انجام دیا۔ قیدی کو پکڑا، نیزہ اس کی پیٹھ کے ساتھ لگایا اور اسے اپنے آگے ہانکتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر جا پہنچا اور سعد بن ابی وقاصؓ کی خدمت میں پیش کیا۔
فارسی کہنے لگا: مجھے جان کی امان دو، میں تم سے سچ بولوں گا۔ سیدنا سعدؓ کہنے لگے: تجھے امان دی جاتی ہے اور ہم وعدے کی پاسداری کرنے والی قوم ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جھوٹ مت بولنا۔ پھر سیدنا سعدؓ نے کہا: ہمیں اپنی فوج کے بارے میں بتاؤ۔
فارسی انتہائی دہشت ناک اور ہذیان کی کیفیت میں کہنے لگا: اپنے لشکر کے بارے میں بتانے سے قبل میں تمہیں تمہارے آدمی کے بارے میں بتلاتا ہوں۔ کہنے لگا: یہ آدمی؟ ہم نے اس جیسا شخص آج تک نہیں دیکھا، میں ہوش سنبھالتے ہی جنگوں میں پلا بڑھا ہوں، اس آدمی نے دو فوجی چھاؤنیوں کو عبور کیا، جنہیں بڑی فوج بھی عبور نہ کر سکتی تھی، پھر سالار لشکر کا خیمہ کاٹا، اس کا گھوڑا بھگا کر لے اڑا، گھڑسوار دستے نے اس کا پیچھا کیا، جن میں سے محض 3 ہی اس کی گرد کو پا سکے، ان میں سے ایک مارا گیا۔ جسے ہم ایک ہزار کے برابر سمجھتے تھے، پھر دوسرا مارا گیا جو ہمارے نزدیک ایک ہزار افراد کے برابر تھا اور دونوں میرے چچا کے بیٹے تھے۔
میں نے اس کا پیچھا جاری رکھا اوران دونوں مقتولین کے انتقام کی آگ سے میرا سینہ دھک رہا تھا، میرے علم میں فارس کا کوئی ایسا شخص نہیں جو قوت میں میرا مقابلہ کر سکے اور جب میں اس سے ٹکرایا تو موت کو اپنے سر پر منڈلاتے پایا، چنانچہ میں نے امان طلب کر کے قیدی بننا قبول کر لیا۔ اگر تمہارے پاس اس جیسے اور افراد ہیں تو تمہیں کوئی ہزیمت سے دوچار نہیں کر سکتا۔
پھر اس فارسی نے اسلام قبول کر لیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ عظیم ہیرو کون تھا؟ جس نے لشکر فارس کو دہشت زدہ کیا، ان کے سالار کو رسوا کیا اور ان کی صفوں میں نقب لگا کر واپس آگئے۔ یہ سیدنا طلیحہ بن خویلد الاسدیؓ تھے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More