دارالعلوم دیوبند سے پوچھئے

0

سودی رقم قرض دینا
سوال: اگر کسی شخص کا بینک میں سیونگ اکاؤنٹ ہو اور اس نے ملنے والی سود کی رقم کو علیحدہ کرکے رکھا ہو، تاکہ وہ علیحدہ شدہ رقم غریبوں کو بغیر نیتِ ثواب دی جائے، لیکن اس دوران کھاتے دار کو کوئی ایسی مجبوری درپیش ہو کہ نوبت ادھار لینے پر آگئی، تو کیا کھاتہ دار سود کی اس رقم سے بلا واسطہ ادھار اٹھا سکتا ہے یا بالواسطہ کسی قرض دار کے لئے وقتی طور قرضہ چکانے کی غرض سے رقم اٹھانے کی کوئی گنجائش ہے؟
جواب: جی نہیں! صورت مسئولہ میں جب کہ کھاتہ دار نے سود کی رقم بینک سے نکال کر الگ کرکے رکھ رکھی ہے اور اس کے اکائونٹ میں رقم نہیں بچی ہے، تو اس کے لیے سودی رقم بطور قرض خود استعمال کرنا یا اس رقم سے دوسرے کا قرض اداء کرنا جائز نہیں ہے۔ (فتویٰ :1075-959/sd=9/1439، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
کریڈٹ کارڈ کا استعمال
سوال: اکثر بینک کریڈٹ کارڈ ہولڈرز کو کچھ کمپنیوں کے پراڈکٹ مثلاً موٹرسائیکل، اے سی وغیرہ 12 مہینوں تک زیرو فیصد مارک اپ پر دیتے ہیں۔ ان کی قیمت مارکیٹ سے تھوڑی سی زیادہ ہوتی ہے۔12 مہینوں سے زیادہ ٹائم پر وہ 3 سے 5 فیصد زیادہ لیتے ہیں اور وہ پروسیسنگ فیس بھی لیتے ہیں۔ کچھ علما کا خیال ہے کہ اگر میں 12 ماہ تک بغیر انٹرسٹ (سود)کے بھی لوںاور قسطیں بھی وقت پر ادا کرتا رہوں تو بھی ٹھیک نہیں، کیونکہ تم نے وہ پیپر سا ئن کیا، جس میں 12 ماہ سے زیادہ پر سود کی شرط ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ سودی بینک ہے۔ جس سے معاملہ کرنا ٹھیک نہیں۔ حالانکہ ہمارے باقی لین دین بھی انہی بینکوں سے ہے۔ مہربانی کرکے وضاحت فرمادیں۔
جواب: ’’چند اہم عصری مسائل‘‘ (کتاب) ج 2 ص287 میں ہے ’’کاروباری ضرورت یا مالی تحفظ کی غرض سے کریڈٹ کارڈ لینے اور اس کے استعمال کرنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ پہلے اکائونٹ کھلوا لیا جائے تاکہ کارڈ جاری کرنے والا ادارہ اپنا قرض وہاں سے وصول کرلے اور اگر اکائونٹ سے فی الحال قرضہ منہا کرنے کا انتظام نہ ہو تو اس کی انتہائی احتیاط برتی جائے کہ جاری کردہ بلوں کی قیمت مقررہ مدت کے اندر اداء کردی جائے تاکہ ان پر سود لاگو نہ ہوسکے، کیونکہ سود کا اداء کرنا حرام ہے۔ یہ کارڈ غیر اسلامی بینک سے بھی لے سکتے ہیں۔‘‘ اور کچھ علماء کا یہ خیال کہ سود اداء نہ کرنے کی مدت میں ادائیگی کردینے کے باوجود یہ معاملہ ٹھیک نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ غیر شرعی معاہدہ اور شرط جو لگائی جاتی ہے، وہ شرعاً باطل اور لغو ہے، اس کی وجہ سے سود لاگو ہونے سے پہلے تک کا معاملہ باطل نہ ہوگا، بلکہ وہ درست رہے گا۔ (فتویٰ :1016-963/H=9/1439، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
ملازمت میں جھوٹ بولنا
سوال: میں ایک کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں جو کہ ایک سافٹ ویئر ہائوس ہے، وہاں میرا کام سیل (بیچنے) کا ہے۔ اس کمپنی میں جھوٹ بھی بہت بولا جاتا ہے، لیکن میں جھوٹ سے بچ کر کام کرتا ہوں۔ ہم انٹرنیشنل کسٹمرس کی ویب سائٹس، لوگوز (علامات)، موبائل اَیپ، آن لائن مارکیٹنگ اور پرنٹنگ سروسز دیتے ہیں اور کسٹمرز کو بتاتے ہیں کہ ہماری کمپنی کیلی فورنیا امریکہ میں ہے، تاکہ وہ ہم پر بھروسہ کرے۔ یہ ساری سروسز ہم کراچی سے دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ امریکہ سے دے رہے ہیں۔ ہم کسٹمر کو نہ صرف فرضی نام بتاتے ہیں، بلکہ فرضی جگہ بھی بتاتے ہیں۔ بس یہ دو باتیں ہیں، جس سے مجھے پریشانی ہے۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملازمت حلال ہے یا حرام؟
جواب: اسلام میں جھوٹ بولنا اور کسی کو دھوکہ دینا ناجائز وحرام ہے، اس لیے اگر آپ بھی جھوٹ اور دھوکہ دہی میں کمپنی کا ساتھ دیتے ہیں، یعنی: کمپنی کے ملازم کی حیثیت سے لوگوں کو یہ بتاتے ہیں کہ ہماری کمپنی کیلی فورنیا میں ہے، ہم سا ری سروسز امریکہ سے دیتے ہیں تو آپ کی ملازمت کا یہ کام ناجائز وحرام ہے، آپ ملازمت میں جھوٹ اور دھوکہ دہی وغیرہ سے مکمل طور پر پرہیز کریں اور اگر ممکن نہ ہو تو کوئی دوسری ایسی ملازمت یا ذریعہ معاش تلاش کریں، جس میں آپ کو کوئی ناجائز کام نہ کرنا پڑے۔ (فتویٰ :889-751/N=8/1439، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More