مولانا شیخ حسین اجمیریؒ بقول بعض حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی اولاد سے تھے اور ان کی درگاہ کے متولی اور شاہانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ دشمنوں نے بادشاہ تک رپورٹ پہنچائی کہ حضرت خواجگان کی کوئی اولاد نہ تھی، یہ بغیر استحقاق کے کس طرح متولی بن گئے، کچھ اور بھی حاشیے چڑھائے۔ بادشاہ نے ان کو مکہ کی طرف بھجوا دیا۔ جب وہ جج کرکے واپس آئے تو یہاں کے دربار کا آئین اکبر کے دین الٰہی کے اجرا کے باعث بالکل بدل چکا تھا۔ چنانچہ شیخ وہ شرائط آداب جو ایجاد ہوئی تھیں اور جن کو وہ اسلام کے خلاف سمجھتے تھے، بجا نہ لائے۔ بادشاہ نے ناراض ہو کر قید کر دیا۔
چند سال کے بعد بعض سفارشوں سے بعض دوسرے قیدیوں کے ساتھ ان کو بھی رہائی ملی۔ سب قیدی بادشاہ کے روبرو آئے اور سجدہ بجالا کر رخصت ہوتے رہے، مگر شیخ نے بوضع قدیم تعظیم وتسلیم کی اور سجدہ نہ کیا۔ بادشاہ نے ناراض ہوکر بھکر میں چوکی پہرہ کے ساتھ بھجوا دیا اور معمولی معاش مقرر کردی۔ (تاریخ ہند)
حضرت خواجہ باقیؒ ہندوستان کے اولیائے کرام سے گزر ے ہیں۔ ان کی مذہبی وصوفیانہ عظمت اسی سے ظاہر ہے کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ آپ کے مریدوں میں تھے۔971 یا 972 میں بزمانہ اکبر آپ کابل میں پیدا ہوئے، بہت سی سیر وسیاحت کے بعد لاہور پہنچے اور ایک سال تک یہاں مقیم رہے۔ لاہور میں ان دنوں سخت قحط سالی تھی۔ خلق خدا کی بے چارگی کا حال دیکھتے تھے اور بے قرار ہو جاتے تھے۔ زبدۃ المقامات میں لکھا ہے کہ جب آپ کے سامنے کھانا لایا جاتا تو فر ماتے: ’’انصاف سے بعید ہے کہ بھوکے پیاسے گلی کوچوں میں تڑپتے پھریں اور ہم گھروں میں بیٹھ کر کھانا کھائیں۔‘‘
جس قدر کھانا ہوتا، آپ ان قحط زدوں کو بھجوا دیتے اور خود غذائے روحانی پر گزارہ کرتے، زبدۃ المقامات میں تو کئی دنوں تک آپ کے بھوکا رہنے کا ذکر ہے۔ 1014ھ کو آپ نے دہلی میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہیں۔
٭٭٭٭٭