اخلاق کی پختگی اور استواری کا اصلی سر چشمہ آزادی اور خود داری ہے۔ اس لئے حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں اس پر بہت توجہ دی اور یہ وہ خصوصیت ہے جو حضرت عمرؓ کے سوا اور خلفاء کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حضرت عثمانؓ و حضرت علیؓ نے البتہ آزادی سے تعرض نہیں کیا۔ لیکن اس کے خطرات کی روک تھام نہ کر سکے، جس کی بدولت حضرت عثمانؓ کی شہادت تک نوبت پہنچی اور جناب امیر سیدنا علیؓ کو جمل و صفین کے معرکے پیش آئے۔ برخلاف اس کے حضرت عمرؓ نے نہایت اعلیٰ درجے کی آزادی قائم رکھنے کے باوجود حکومت کی جبروت میں ذرا کمی نہ آنے دی۔
مختلف موقعوں پر تحریر و تقریر سے جتا دیا کہ ہر شخص ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوا ہے اور ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی بھی کسی کے آگے ذلیل ہو کر نہیں رہ سکتا۔ حضرت عمرو بن العاصؓ کے معزز فرزند نے جب ایک قبطی کو بے وجہ مارا تو خود اسی کے ہاتھ سے مجمع عام میں سزا دلوائی اور عمرو بن العاصؓ اور ان کے بیٹے کی طرف مخاطب ہو کر یہ تاریخی الفاظ کہے:
’’تم لوگوں نے آدمیوں کو غلام کب سے بنا لیا۔ ان کی ماؤں نے تو ان کو آزاد جنا تھا۔‘‘
عرب میں جو لوگ ان کو معزز ہوتے تھے، وہ اپنے قبیلے کے سید یعنی آقا کہلاتے تھے اور ان سے کم رتبہ کے لوگ ان الفاظ سے مخاطب کرتے تھے: ’’خدا مجھے آپ پر قربان کر دے۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔‘‘
چونکہ ان الفاظ سے غلامی اور محکومی کی بو آتی تھی۔ حضرت عمرؓ نے مختلف موقعوں پر ان کی نسبت ناراضگی ظاہر کی۔ ایک شخص نے خود ان کی شان میں یہ جملہ کہا تو فرمایا کہ ’’اگر تو ایسا کرے گا تو خدا تجھ کو ذلیل کرے گا۔‘‘ حضرت عمرؓ کے اس طریق عمل نے لوگوں کو جس قدر آزادی اور صاف گوئی پر دلیر کر دیا تھا، اس کا صحیح اندازہ ذیل کے واقعات سے ہو گا۔
ایک دفعہ انہوں نے منبر پر چڑھ کر کہا: صاحبو! اگر میں دنیا کی طرف جھک جاؤں تو تم لوگ کیا کرو گے؟ ایک شخص کھڑا ہو گیا اور تلوار میان سے کھینچ کر بولا کہ ’’تمہارا سر اڑا دیں گے‘‘ حضرت عمرؓ نے آزمانے کو ڈانٹ کر کہا ’’کیا میری شان میں تو یہ الفاظ کہتا ہے؟‘‘ اس نے کہا کہ ہاں تمہاری شان میں۔ حضرت عمرؓ نے کہا ’’خدا کا شکرکہ قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ میں کج ہوں گا تو سیدھا کر دیں گے۔‘‘
عراق کی فتح کے بعد اکثر بزرگوں نے عیسائی عورتوں سے شادیاں کر لی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کو لکھا کہ میں اس کو ناپسند کرتا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ حکم آپ کی ذاتی رائے ہے یا شرعی حکم ہے؟ حضرت عمرؓ نے لکھا کہ میری ذاتی رائے ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے لکھ بھیجا کہ آپ کی ذاتی رائے کی پابندی ہم لوگوں پر ضروری نہیں۔ چنانچہ باوجود حضرت عمرؓ کی ممانعت کے کثرت سے لوگوں نے شادیاں کیں۔
مؤرخ یعقوبی نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے تمام گورنروں کا مال و اسباب نیلام کر کے آدھا مال بیت المال میں داخل کر دیا تو ایک گورنر نے جس کا نام ابو بکرہ تھا، صاف کہا کہ اگر یہ مال خدا کا تھا تو کل بیت المال میں داخل کرنا چاہیے تھا اور ہمارا تھا تو اس سے تم کو لینے کا کیا حق تھا؟
حضرت عمرؓ کی تقلید اور ان کی تعلیم و تربیت کا یہ اثر ہوا کہ اسلامی جماعت کا ہر ممبر پاکیزہ نفسی، نیک خوئی، حلم و تواضع، جرأت مندی و آزادی، حق پرستی و بے نیازی کی تصویر بن گیا۔ تاریخ کے مرقع میں اس وقت کی مجالس اور محافل کا نقشہ دیکھو تو ہر شخص کے حلیہ میں یہ خد و خال صاف نظر آتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post