سرفروش

0

عباس ثاقب
میں نے شکتی کی بات سن کر اپنے لہجے میں تشویش لاتے ہوئے کہا۔ ’’یار شکتی، اتنا سمجھ دار بندہ ہونے کے باوجود تمہیں احساس نہیں کہ تم آگ سے کھیل رہے ہو؟ تمہیں پتا ہے ناں نہرو سرکار روز نئے قانون بنا رہی ہے اور ہتھیاروں کے معاملے میں تو حد سے زیادہ سختی ہونے والی ہے۔ ایک آدھ شاٹ گن کی تو خیر ہے۔ لیکن اتنے سارے آٹو میٹک غیر قانونی ہتھیاروں کے ساتھ پکڑے گئے تو کم ازکم آٹھ دس سال کے لیے اندر ہو جاؤ گے۔ کسی اور کو بیچنے کا تو سوچنا بھی مت۔ مخبری ہوگئی تو لینے کے دینے پڑجائیں گے‘‘۔
میری بات پر اس کے چہرے پر تشویش کے واضح آثار نظر آئے۔ ظہیر نے لوہا گرم دیکھ کر فوراً چوٹ لگائی۔ ’’بڑے بھائی گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ انہیں کنور جی کو فروخت کر کے اس خطرے سے جان چھڑالو۔ یہ تمہیں اچھی رقم دیں گے اور تمہارے راز کی حفاظت بھی کریں گے۔ ان کی سرکار دربار میں پہنچ ہے، اپنا رسوخ استعمال کر کے شاید لائسنس بھی بنوالیں‘‘۔
میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ’’یار، لائسنس نہیں بھی ملے تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے؟ کس کی جرأت ہے کہ میری جاگیر کی حد میں آکر مجھے ٹوکے۔ میں تمہیں ہر اسٹین گن کے پورے دو ہزار روپے دوں گا۔ شاٹ گن بیچنا چاہو تو سات سو… چلو، ہزار ہزار ان کے بھی لے لینا‘‘۔
میں نے شکتی کی آنکھوں میں لالچ کی تیز چمک دیکھی۔ یہ دام شاید اس کی امید سے بہت زیادہ تھے۔ خصوصاً شاٹ گن تو وہ کسی بھی جگہ سے اس سے آدھی سے بھی کم قیمت میں خرید سکتا تھا۔ اس نے گویا بے ساختہ اثبات میں گردن ہلائی۔
میں نے کہا۔ ’’چلو پھر ساری بندوقیں لاکر ایک نظر دکھا دو۔ چاہو تو یشونت کو بھی ساتھ لے جاؤ‘‘۔
جواب میں شکتی نے عجلت میں نفی میں سر ہلاکر پُرزور لہجے میں کہا۔ ’’شاٹ گنیں تو یہیں موجود ہیں، میں تینوں اسٹین گنیں لے آتا ہوں۔ کوئی زیادہ بھاری تھوڑی ہیں‘‘۔
ظہیر نے دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھا۔ میں نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے شکتی کو جانے کی اجازت دے دی۔ حقیقت یہ ہے کہ ظہیر کی طرح میں بھی خوشی سے باغ باغ ہو رہا تھا۔ ہم نے تو اندھیرے میں تیر چلایا تھا، جو خوش قسمتی سے عین نشانے پر جا بیٹھا۔
شکتی نے واپسی میں اندازے سے زیادہ دیر لگادی۔ جب لگ بھگ بیس منٹ بعد بھی اس کی آمد کے آثار نظر نہ آئے تو ظہیر نے مضطرب ہوکر مجھے دیکھا۔ میں نے اسے تحمل اپنائے رکھنے کی تلقین کی۔ مجھے اس غیر معمولی تاخیر کی وجہ کا کچھ کچھ اندازہ تھا۔ بالآخر جب شکتی گھر کے اندرونی حصے سے نمودار ہوا تو میرے قیاس کی تصدیق ہوگئی۔ اس نے تینوں اسٹین گنیں ان کے پٹوں کے ذریعے شانے پر لٹکا رکھی تھیں ، جبکہ وہ پٹ سن کی ایک بوری بھی ساتھ گھسیٹ کر لارہا تھا۔
میرا اندازہ تھا کہ اس نے تمام گولیاں بکسوں سے نکال کر بوری میں ایک ساتھ بھر دی ہیں۔ لیکن اس نے اسٹین گنیں ہمارے حوالے کر کے بوری میں موجود مال دکھایا تو پتا چلا کہ اسٹین گن کی گولیوں کے تمام چھ سیل پیک بکس، جوں کے توں موجود ہیں۔ البتہ تھری ناٹ تھری کی گولیاں اور بارہ بور کے کارتوس الگ الگ تھیلوں میں ڈال کر بوری میں بھرے گئے۔
میں بوری کو فی الحال نظر انداز کر کے شکتی کی تھمائی ہوئی ایک اسٹین گن کا بغور جائزہ لینے لگا۔ وہ تینوں مارک تھری ساخت کی چھوٹی نال والی اسٹین گنیں تھیں۔ دیکھنے میں لگ بھگ نئی جیسی۔ میں نے اسے کاک کیا اور پھر ٹریگر دبایا۔ نشست گاہ میں گونجنے والے زور دار کھٹاکے سے اندازہ ہوا کہ اس کا اسپرنگ اپنی پوری طاقت کے ساتھ کام کرتا ہے۔ فولادی دستہ باآسانی فولڈ ہو جاتا تھا۔ تین سیر سے زیادہ وزنی ہونے کے باوجود وہ سنبھالنے میں بہت آسان تھی۔
ظہیر بھی ایسی ہی اسٹین گن کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔ اس نے خفیہ پولیس کے اہل کاروں کو ٹھکانے لگاکر جو اسٹین گنیں ہتھیائی تھیں، وہ مارک ٹو ساخت کی تھیں، جو اس گن کے مقابلے میں زیادہ لمبی نال اور کم نفیس ساخت کی حامل تھیں۔ البتہ مجھے معلومات تھیں کہ دونوں طرز کی اسٹین گنوں میں ایک ہی بور یعنی نائن ایم ایم کی گولیاں استعمال ہوتی ہیں اور دونوں میں ایک ساخت کا بتیس گولیوں والا میگزین لگتا ہے۔
میگزین کا خیال آتے ہی میں نے شکتی سے سوال کرنا چاہا، لیکن وہ میرے ذہن میں پیدا ہونے والا یہ سوال پہلے ہی بھانپ چکا تھا۔ ’’فکر نہ کریں کنور جی۔ آٹھ خالی میگزین موجود ہیں بوری میں۔ آپ کہیں تو میں لوڈ کر دیتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’نہیں، فی الحال ضرورت نہیں ہے‘‘۔ پھر میں نے ظہیر کو مخاطب کیا۔ ’’کیوں بھئی جوان، کیا خیال ہے ہتھیاروں کے بارے میں‘‘۔
اس نے کہا۔ ’’آپ نے قیمت کچھ زیادہ لگا دی… لیکن گنیں اچھی ہیں، تو ٹھیک ہے‘‘۔
میں نے ایک طویل قہقہہ لگایا اور اسے کہا۔ ’’اچھے ہتھیار کے لیے کوئی بھی قیمت زیادہ نہیں ہے یشونت… یہ زندگی اور موت کا فرق بن سکتے ہیں۔ ویسے بھی شکتی نے مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا ہے، اس کے پاس کچھ فالتو رقم بھی چلی جائے تو مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔ بھلا احسان کی بھی کوئی قیمت چُکائی جا سکتی ہے؟‘‘۔
میری بات سن کر شکتی کے چہرے پر خوشی جگمگائی۔ ’’دھن باد کنور جی۔ میں بتا نہیں سکتا آپ کی سیوا کر کے مجھے کتنی خوشی ہوئی۔ آپ مجھے دو منٹ دو، میں دونوں شاٹ گنیں بھی صاف ستھری کر کے لے کر آتا ہوں، پھر آپ انہیں چلاکر بھی اپنا اطمینان کر لینا‘‘۔
میں نے پُر زور لہجے میں کہا۔ ’’نہیں، اب ٹیسٹنگ کی کوئی ضرورت نہیں۔ مجھے تم پر پورا وشواس ہے۔ تم کھرے آدمی ہو۔ بس ان دونوں بندوقوں کو لے آؤ اور سب ہتھیاروں کو بھی ایمونیشن کے ساتھ اسی بوری میں باندھ دو‘‘۔
شکتی نے میری ہدایت پر جھٹ پٹ عمل کیا۔ دونوں شاٹ گنیں بھی بہت اچھی حالت میں دکھائی دے رہی تھیں۔ البتہ صرف ظہیر نے انہیں باری باری ہاتھ میں لے کر معائنہ کیا اور پھر ہاں میں سر ہلاکر اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔ اس نے ساری بندوقیں ترتیب اور نفاست سے بوری میں بندکروانے اور رسی سے بوری کا منہ بندھوانے میں شکتی کی مدد کی۔ ہمارا مال روانگی کے لیے تیار ہوگیا تو میں نے شکتی کو کہا۔ ’’اب تم بتاؤ یار کہ ایمونیشن کا تمہیں کیا دوں؟ فکر نہ کرو، تم نے میرا دل خوش کر دیا ہے، تم جو مانگو گے، سچ مچ اتنا ہی دے دوں گا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More