سندھ میں چینی کی قیمت 90 روپے تک پہنچنے کا امکان

0

عمران خان
رواں ماہ چینی کی قیمت 50 روپے فی کلو سے 10روپے کلو اضافے سے 60 روپے کلو تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ سندھ میں چینی کی قیمت آئندہ آنے والے دنوں میں 80 روپے سے 90 روپے تک پہنچنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ سندھ کی 32 شوگر ملوں میں سے 26 شوگر ملوں میں گنے کی کرشنگ شروع ہوچکی ہے۔ جبکہ اومنی گروپ کے تحت چلائی جانے والی سندھ کی 9 شوگر ملوں میں سے 6 شوگر ملیں ایف آئی اے میں منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں بینک اکائونٹس منجمد ہونے کے کرشنگ کا عمل شروع نہیں کرسکی ہیں۔ ان شوگر ملوں میں رواں برس کرشنگ سیزن میں کام نہیں ہوسکے گا۔ اومنی گروپ کے چلائی جانے والی 9 شوگر ملوں کے اسٹاک میں موجود 14 ارب روپے مالیت کی چینی میں سے 12 ارب روپے مالیت کی چینی غائب ہونے کے حوالے سے پہلے ہی منی لانڈرنگ پر کام کرنے والی جے آئی ٹی کی جانب سے کیس تیار کرنے کی سفارش کردی گئی ہے۔ اومنی گروپ کے تحت چلنے والی 9 شوگر ملوں کے اسٹاک میں موجود 14 ارب روپے مالیت کی چینی کو ظاہر کرکے بینکوں سے رقوم لی گئی تھیں۔ یہ معاملہ سامنے آنے پر سپریم کورٹ کی جانب سے بھی ایف آئی اے کو سخت اقدامات لینے کی ہدیات دی گئی تھیں۔ دوسری جانب سندھ میں رواں سیزن میں گنے کی فصل میں پانی کے بحران اور بارشیں نہ ہونے کے سبب 60 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ شوگر ملوں کی انتظامیہ نے بھی کرشنگ کیلئے مقررہ معیاد میں گنے کی خریداری کی قیمتوں میں کمی کرانے کیلئے تاخیری حربے استعمال کئے جس کی وجہ سے کرشنگ کا عمل تاخیر سے شروع ہوا۔ سندھ حکومت کی جانب سے بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو مستقبل قریب میں چینی کا بحران پیدا ہوسکتا ہے ۔
گزشتہ دو ہفتوں میں مقامی مارکیٹ میں چینی کے ہول سیل نرخوں اور ریٹیل کی قیمت میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے بعد اس وقت چینی 10 روپے کلو فی اضافے کے ساتھ 50 روپے سے 60 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔ چینی کے نرخوں میں اس اچانک اضافے کی وجوہات جاننے کیلئے ’’امت‘‘ کی جانب سے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن، سندھ آباد گار بورڈ اور سندھ چیمبر آف ایگری کلچر کے عہدیداروں سے معلومات حاصل کی گئیں جس میں تین بڑی وجوہات سامنے آئی ہیں۔ ان میں سندھ حکومت کی متعلقہ وزارت کی جانب سے بروقت اقدامات نہ کرنا، شوگر ملوں کی جانب سے کرشنگ کے عمل میں تاخیری حربے استعمال کرنا اور گنے کی فصل میں 60 فیصد تک کمی شامل ہیں۔
پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے اعداد وشمار کے مطابق سندھ بھر میں مجموعی طور پر 32 شوگر ملیں چینی کی تیاری کیلئے فعال ہیں، جن میں ٹھٹہ گھارو میں قائم عبداللہ شاہ غازی شوگر مل، میر واہ گورچانی میر پور خاص میں قائم العباس شوگر مل، تعلقہ مورو نوابشاہ میں قائم النور شوگر مل، ماتلی حیدر آباد میں قائم انصاری شوگر مل، بدین میں قائم آرمی ویلفیئر شوگر مل، بدین میں قائم باوانی شوگر مل، ٹھٹھ میں قائم دیوان شوگر مل، ڈگری شوگر مل، حیدر آباد میں قائم فاران شوگر مل، جے ڈی ڈبلیو گھوٹکی شوگر مل، حبیب شوگر مل نوابشاہ، خیر پور شوگر مل نوڈیرو، کھوسکی شوگر مل بدین، کرن شوگر مل کھوسکی بدین، لڑ شوگر مل سجاول، مٹیاری شوگر مل، مہران شوگر مل ٹنڈو الٰہیار، میر پور خاص شوگر مل، مرزا شوگر مل بدین، نجمہ شوگر مل جھڈو، نوڈیرو شوگر مل، نیو دادو شوگر مل، پنگریو شوگر مل، رانی پور شوگر مل، سکرنڈ شوگر مل، سانگھڑ شوگر مل، سیری شوگر مل حیدر آباد، شاہ مراد شوگر مل ٹھٹھہ، سندھ آبادگار شوگر مل ٹھٹھہ، ٹی ایم کے شوگر مل حیدر آباد، ایس جی ایم شوگر مل اور تھرپارکر شوگر مل شامل ہیں۔
مذکورہ 32 شوگر ملوں میں سے 9 شوگرملیں اومنی گروپ آف کمپنیز کے تحت چلائی جا رہی ہیں جو شوگر ملوں کے حساب سے ملک کا سب سے بڑا گروپ سمجھا جاتا ہے۔ اومنی گروپ اس وقت منی لانڈرنگ کے میگا کرپشن کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ کے ساتھ زیر تفتیش ہے جس کے حوالے سے 77 بے نامی اکائونٹس کے ذریعے 1 کھرب سے زائد کی رقم کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیقات تقریباً آخری مراحل میں ہیں۔ تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ اومنی گروپ کی جانب سے اربوں روپے کی اضافی آمدنی کیلئے شوگر ملوں کو سرکاری فنڈز حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا۔ یہ فنڈ کہیں سبسڈی اور کہیں قرضوں کی صورت میں حاصل کیا گیا۔ جبکہ جے آئی ٹی کی تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ 2018ء سے قبل کرشنگ سیزن کا آغاز ہوتے ہی اومنی گروپ آف کمپنیز کو سندھ حکومت کی جانب سے اربوں روپے کی سبسڈی ایکسپورٹ کی مد میں جاری کی گئی تھی۔ کمپنی کی جانب سے اپنے 9 ملوں کے اسٹاک میں 14 ارب روپے مالیت کی چینی ظاہر کرکے بینکوں سے رقوم حاصل کی گئیں۔ تاہم تحقیقات کے دوران ہی ان کمپنیوں سے ٹرکوں کے ذریعے تقریباً12 ارب روپے مالیت کی چینی نکال لی گئی تھی۔ یہ معاملہ سامنے آنے پر اس وقت اس پر 9 علیحدہ علیحدہ کیسوں پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
اس ضمن میں ’’امت‘‘ کو سندھ چیمبر آف ایگری کلچر کے صدر قبول خان کھٹیان نے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ قانون کے مطابق سندھ کی شوگر ملوں کو 30 نومبر سے قبل ہی کسانوں سے گنے کی خریداری کا عمل مکمل کرکے کرشنگ کا عمل شروع کرنا ہوتا ہے۔ تاکہ سیزن شروع ہوتے ہی چینی کی مطلوبہ کھپت مارکیٹ میں پوری کی جاتی رہے اور قیمتیں برقرار رہیں۔ تاہم رواں برس اس میں تاخیر ہوئی اور مزید کئی ایسے عوامل سامنے آئے جس کے باعث چینی کی قیمتیں مارکیٹ میں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔ یہ قیمتیں 80 روپے فی کلو تک بھی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت 32 میں سے 26 ملوں میں کرشنگ شروع ہوچکی ہے۔ تاہم ان ملوں کو زیادہ عرصے تک گنے کی سپلائی ممکن نہیں ہے۔ صرف اگلے ایک ماہ تک ہی گنا سپلائی کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ حالیہ سیزن میں بارشوں کی کمی اور نہری پانی کے بحران کی وجہ سے گنے کی مجموعی کاشت میں 60 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے دو مرتبہ نومبر کے مہینے میں شوگر ملوں کو خطوط لکھے گئے کہ وہ جلد کسانوں سے خریداری کا عمل مکمل کرکے کرشنگ شروع کریں تاکہ چینی کا بحران پیدا نہ ہو۔ تاہم شوگر مل مالکان اور کسانوں کے درمیان ریٹ کے تنازع پر کرشنگ کیلئے گنے کی خریداری میں تاخیر ہوتی رہی۔
ذرائع کے مطابق اس دوران بعض شوگر ملوں کے مالکان کی جانب سے کچھ علاقوں سے گنا 140 روپے فی من کے حساب سے خرید کر کرشنگ شروع کی گئی۔ لیکن زیادہ تر مل مالکان حکومت سے کم سے کم نرخ طے کرنے پر دبائو ڈالتے رہے۔ دوسری جانب کسانوں کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نرخ طے کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ جبکہ حکومت نے اس معاملے میں کوئی سنجیدہ کردار ادا کرنے کے بجائے تاخیر کرنے میں عافیت محسوس کی اور پنجاب میں حکومت کی جانب سے 180 روپے فی من کا ریٹ طے ہونے کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد اگلے روز 182 روپے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اس دوران نومبر کا مہینہ بھی گزر گیا اور کرشنگ شروع نہ ہوسکی۔
سندھ آبادگار بورڈ کے سربراہ قبول خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اومنی گروپ کی 6 ملز بند ہونے کا اتنا اثر نہیں پڑے گا۔ کیونکہ سیزن ابھی شروع ہوا ہے اور اگر کوئی اثر مرتب ہوا بھی تو وہ چند ماہ کے بعد ہوگا۔ تاہم شوگر ملوں کے مالکان یہی چاہتے تھے کہ چونکہ فصل کم ہوئی ہے اور سپلائی زیادہ عرصہ تک نہیں ہوگی، اس لئے کرشنگ اور سپلائی میں تاخیر کرنے سے ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے درمیان توازن بگڑنے سے مارکیٹ میں ریٹ میں اضافہ ہوجائے۔ وہ اب ہونا شروع ہوگیا ہے اور اس کا فائدہ مل مالکان سے لے کر کسانوں تک سب کو ہورہا ہے۔ تاہم صارفین کو اس کا نقصا ن ہو رہا ہے۔
اس ضمن میں شوگر مل ایسوسی ایشن کے سندھ کے عہدیدار قاسم نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ریٹ میں حالیہ اضافہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی میں عدم توازن کا نتیجہ ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More