محمد طاہر اردن سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان ہے۔ وہ کام کی تلاش میں سعودی عرب آیا تھا۔ اُسے کام مل گیا۔ لیکن اُسے ایک اور چیزبھی مل گئی جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ اُسے ہدایت مل گئی، اُس نے ایمان کی مٹھاس پالی۔ وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:
میں سعودیہ (تبوک) میں کام کی تلاش میں آگیا، میں اُس وقت حقیقی مسلمان نہ تھا، میں تو وراثتاً مسلمان تھا جیسا کہ اس پر آشوب دور میں بہت سے مسلمانوں کی حالت ہے۔ شروع میں، میں ایک ہوٹل میں کام کرتا تھا، پھر ہوٹل والے نے مجھ سے کہا کہ میں اُس کیلئے ایک اور کام یعنی بے حیائی کی ویڈیو کیسٹ بیچنے کی دکان پر کام کروں۔ میں نے اس دکان پر تقریباً پانچ سال کام کیا۔ یہ تبوک میں ویڈیو کی بہت مشہور دکان ہے۔
چوتھے سال ایک رات کو خوش رو اور روشن چہرے والا ایک نوجوان دکان میں داخل ہوا۔ اُس پر نیکی اور تقویٰ کی علامات واضح تھیں۔ تعجب ہے یہ نوجوان کیا لینے آیا ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا۔ اس نوجوان نے اپنا ہاتھ بڑھایا، مجھ سے اس نے گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔
اس کا سنجیدہ چہرہ پُررونق تھا جو دل کو موہتی اور وحشت کو دور کرتی تھی۔ دل کے اُن پردوں کو چیرتی تھی جو ہمیشہ سے رکاوٹ بنے کھڑے تھے اور خیر و بھلائی کو دل تک پہنچنے سے روکتے تھے ۔ جن کی سخت ترین ضرورت ہے۔
اس نے مجھے بلیغ ترین انداز نصیحت کی، مجھے اس طرح کے غیر شرعی اور خلاف اسلام کام کے انجام سے ڈرایا، نیز اس سے معاشرے کی بربادی کس قدر لازم آتی ہے۔ معاشرے کے افراد میں برائیاں پھیلتی ہیں۔ رب تعالیٰ عنقریب روز قیامت اس پر مجھ سے حساب لیں گے۔ اپنی بات سے فارغ ہونے کے بعد اس نے مجھے ’’کراماتِ مجاہدین‘‘ کے حوالے سے شیخ تمیم العدنانی کی ایک کیسٹ بطور تحفہ دے دی۔ میں اکیلا رہتا تھا، میں گانے سن سن کے اور فلمیں دیکھ دیکھ کر اکتا چکا تھا۔
مجھے فرصت نے اس کیسٹ کو سننے پر مجبور کردیا، جس میں کرامات مجاہدین کی گفتگو تھی۔ میں اس کو سن کر فارغ ہوا تو مجھ پر خوف اور ندامت طاری ہو گئی۔ مجھ پر اپنی حقیقت حال، خدا سے غفلت اور اپنے پروردگار کے سامنے کوتاہیاں کھل گئیں۔ میں مسلسل روتا گیا۔ میں بہت زیادہ رویا، جیسے کوئی چھوٹا بچہ شدتِ بھوک سے روتا ہے۔ شیخ اُن لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو جہاد کے لئے وقف کر دیا ہے۔ شیخ نے گفتگو کی۔ مجاہدین کی کرامات اور اُن کی بہادریاں بتائیں۔
یہ لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اور کلمہ طیبہ پر مبنی جھنڈا بلند کرتے ہیں، انہوںنے اپنی ذات کو رب کے لئے وقف کردیا ہے۔ انہوںنے اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر رکھا ہوا ہے۔ جبکہ میں چوپایوں کی سی زندگی گزار رہا ہوں، اپنی نفسانی خواہشات پوری کرنے کے سوا کوئی فکرنہیں ہے، اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ بارہ برس سے میری عمر گناہ میں گزر رہی تھی اور میں نے اس دوران خدا کے لئے دو رکعت بھی نہ پڑھی تھی۔ گویا کہ میں اس رات دوبارہ پیدا ہوگیا تھا۔
سب سے پہلی چیز جس پر میں نے سوچا کہ وہ یہ تھی کہ ویڈیو کیسٹوں کی فروخت والے کام سے چھٹکارا کیسے حاصل کروں؟ اور کوئی ایسا شرافت والا کام ڈھونڈا جائے جو خدا تعالیٰ کو راضی کردے۔ لیکن کیا میں اپنی جان بچا لوں اور لوگوں کو گمراہی اور تباہی میں چھوڑ دوں؟ میں نے سوچا کہ ویڈیو کی دکان پر ایک سال مزید کام کروں، لیکن یہ گزشتہ برسوں کی طرح نہیں۔ میں ا س سال دکان پر آنے والے ہر شخص کو ان فلموں کے نقصانات سمجھاتا اور ان میں خدا کا حکم واضح کرتا، اس امید سے کہ رب میرے پچھلے گناہ بخش دے اور میری توبہ قبول فرمالے۔
چند دن نہ گزرے تھے کہ ماہِ رمضان آگیا، یہ اس مہینے کی مٹھاس اور روحانیت کا مجھے اس سال ہی شعور ہوا، جس میں رب نے مجھ پر ہدایت کا احسان فرمایا تھا۔ میں تلاوتِ قرآن پر متوجہ ہوگیا تھا اور مفید کیسٹیں سننے پر، مثلاً: خطبے، دروس اور تقاریر۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے دو کیسٹیں سنی ہیں، جتنا ان دونوں کا اثر ہوا، اتنا مجھے کسی سے نہ ہوا تھا اور وہ ہیں المورعی کی لذتوں کو توڑنے والی اور تذکرۂ جنت اور دوزخ۔ رہا کام! تو جس دکان میں، میںکام کرتا تھا، اُسی کے ساتھ ہی اسلامی کیسٹوں کی فروخت و ریکارڈنگ کی ایک اور دکان تھی۔ میری آرزو تھی کہ میں اسی دکان پر کام کروں۔ جب پانچواں سال گزر گیا۔
میں نے رب کے غضب اور اس کی لعنت کے ڈر سے ویڈیو کی دکان چھوڑ دی۔ میں دو مہینے تک بے روزگار رہا، تاکہ خدا میری آرزو پوری کردے اور اس نے میرے لئے اسلامی ریکارڈنگ کی دکان پر کام کرنا ممکن کردیا۔ رہا دکان کا مالک تو ہم اُسے سمجھانے اورخدا کے نام سے نصیحت کرنے لگے۔ ہم رب کا شکر ادا کرتے ہیں اُس نے بات مان لی اور دکان کو خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے چھوڑ دیا اور ویڈیو کے کام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیا۔
میں یاد کرتا ہوں کہ میں تبدیلی کے مرحلے میں ہوں، فساد کے آنگن سے ایمان کے آنگن کی طرف۔ ان سب عوامل نے میرے ایمان اور حق پر میری ثابت قدمی میں اضافہ کردیا۔ آخر میں، میں رب سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور آپ کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھے۔ نیز میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ جو کچھ میں نے کہا اسے وہ ہر غافل کے لئے عبرت و نصیحت بنا دے۔ خوش نصیب سعادت مند وہ ہے جو دوسرے سے عبرت حاصل کرے۔
(بحوالہ: گناہ چھوڑنے کے انعامات 182)
٭٭٭٭٭