سادہ شادی بابرکت زندگی

0

تیرہواں حصہ
مولوی عبد الخالقؒ کی صاحبزادی کی رخصتی:
مولوی عبد الخالقؒ کی بیگم صاحبہ نے ایک دن مولوی صاحب سے کہا کہ کچھ پتہ بھی ہے کہ بیٹی اب بیاہ جانے کے قابل ہوگئی ہے۔ مولانا نے فرمایا: اچھا۔ خدا کا شکر ہے۔ مولوی عبد الخالق صاحب نے بیوی کی بات سنی تو سیدھے مفتی صدر الدین آزردہؒ کے پاس مشورہ لینے کے لیے پہنچے۔
مفتی صاحب نے کہا: نذیر حسین آپ ہی کے شاگرد ہیں، خوب معلوم ہے، ان سے رشتہ طے کرالیں۔ مفتی صاحب نے لڑکے کی اور اس کے والدین کی رضامندی حاصل کی اور عصر کے بعد نکاح کردیا۔ چنانچہ مولوی عبد الخالق نے بیوی سے کہا: نیک بخت! ذرا بیٹی کا منہ دھلا دیجیو اور اچھے کپڑے پہنا دیجیو۔
بی بی نے فوراً میاں کے حکم کی تعمیل کی۔ وہ خوشی خوشی بیٹی کو بنا سنوار کے بیٹھی ہی تھی کہ میاں جی جلدی جلدی گھر کے اندر آئے اور بولے کہ بیٹی سے بات کر لو اور اس کا جو کچھ سامان ہے، ایک گٹھڑی میں باندھ دو کہ ساتھ لے جائے۔ ڈولی آنے والی ہے۔ (تجلی از شاہ بلیغ الدین صاحب صفحہ 465)
حضرت مولانا مملوک علیؒ نے اپنی بیوہ لڑکی کی شادی اس طرح کی تھی، جیسے کنواری کی کرتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ بیوہ کے نکاح کو ناک کٹی سمجھتے تھے۔ بعد نکاح کے مولانا نے نائی کو حکم دیا کہ آئینہ تمام برادری کو دکھلا دے، سب اپنی اپنی ناکوں کو دیکھ لیں کہ کٹیں تو نہیں۔ (مواعظ اشرفیہ ’’دین ودنیا‘‘ صفحہ 497)
حضرت شیخ سعدیؒ کا نکاح:
حضرت شیخ شرف الدینؒ ملقب بہ مصلح الدین سعدی شیرازی (متوفی 691 ھ) حصول تعلیم کے بعد سیر و سیاحت کے دوران ایک دفعہ بیت المقدس کے جنگلوں میں ننگے پائوں (غربت کی وجہ سے) پھر رہے تھے۔ یہ صلیبی جنگوں کا زمانہ تھا۔ چنانچہ عیسائیوں نے پکڑ لیا اور ان سے خندق کھدواتے رہے۔ مدتوں بعد آپ کے ایک پرانے ملنے والے ادھر سے گزرے۔ آپ کو اس حال میں دیکھا، تو اس پر رحم آیا، کچھ روپیہ دے کر شیخ کو اس مصیبت سے چھڑایا۔ اپنے گھر لائے، اتنا ہی نہیں کیا، بلکہ اپنی بیٹی سے ان کی شادی کر دی۔ (گلستان باب 2 حکایت 30)
مولانا نانوتویؒ کی اہلیہ:
بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کو دیوبند کے کسی رئیس نے اپنی بیٹی نکاح میں دے دی۔ جب خلوت میں اپنی دلہن کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ سونے کے زیورات سے اٹی ہوئی ہے۔ آپ نے نئی دلہن پر توجہ کیے بغیر اسی کمرے میں خدا کے حضور سجدہ ریز ہوئے اور نماز پڑھتے رہے۔
نماز سے فارغ ہوئے تو بیوی کے قریب ہو کر اسے یوں تقریر کی کہ دیکھو! تم ایک امیر، رئیس کی صاحبزادی ہو اور میں فقیر وغریب اور ایک مسکین انسان ہوں۔ نکاح کے بعد اب تمہارا اور میرا ایک ساتھ جینا ہو گیا ہے۔ ہمارا مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہے، مگر یہ نبھائو بظاہر مشکل ہوگا کہ تو امیر ہے اور امیر کی بیٹی ہے۔ میں فقیر ہوں اور فقر کو پسند کرتا ہوں۔ ہمارا گزارہ تب بہتر ہو سکے گا جب دونوں ایک ہو جائیں یا میں امیر بن جائوں یا تو فقر اختیار کرلے۔ جہاں تک میری امارات اور دنیا پسندی کا تعلق ہے وہ تو ناممکن ہے۔ البتہ آپ کو فقر و مسکنت کی راہ اختیار کرنا آسان ہے۔ اب آپ جونسی راہ اختیار کریں گی، مستقبل کے لحاظ سے ہمارے تعلق کا اس پر نتیجہ مرتب ہوگا۔
بیوی نے ان کی تقریر سن کر بڑی خوشی سے کہہ دیا کہ میں فقر وغربت کی راہ اختیار کرتی ہوں اور میرے سارے زیورات آپ کی ملکیت ہیں اور آپ کو اختیار ہے، جہاں چاہے استعمال کریں۔
مولانا قاسم نانوتویؒ تو فقر، زہد اور ورع و تقویٰ کے پہاڑ تھے، اسی وقت بغیر کسی تاخیر کے اپنی دلہن سے تمام کے تمام زیورات اتار لیے اور صبح، بلقان کی جنگ میں مسلمانوں کی اعانت ونصرت کے لیے چندے میں داخل کر دیئے۔ (الحق ستمبر 85ء ص :10)(جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More