آئی پی پیزپرسپریم کورٹ کومطمئن کرنے میں حکومت ناکام
اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)وفاقی وزیر بجلی عمر ایوب آئی پی پیز کیس میں سپریم کورٹ کو مطمئن نہ کر سکے، عدالت نے معاہدے ملکی مفاد میں ہونے یا نہ ہونے پر تحریری جواب طلب کر لیا جبکہ عالمی فورمز پر زیر التوا مقدموں اور آئی پی پیز معاہدوں کی تفصیل بھی مانگ لی۔چیف جسٹس نے وزیر بجلی سے استفسار کیا کہ یہ کس طرح کے معاہدے ہیں؟ غریبوں سے پیسے لے کر امیروں کو دیئے جاتے ہیں۔سپریم کورٹ میں آئی پی پیز کیس کی سماعت ہوئی جس دوران وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب طلب کیے جانے پر پیش ہوئے۔کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں ہوئی ، جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کس طرح کے معاہدے ہیں کیا آپ نے کبھی غور کیا ؟ آئی پی پیز کو کتنی اضافی رقم دی گئی ہے۔ یہاں غریبوں سے پیسے لے کر امیروں کو دیے جاتے ہیں۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ بجلی بنائیں یا نہیں لیکن آپ نے ان کو پیسے تو دینے ہی ہیں۔ یہاں تو گرڈ اسٹیشنوں میں ہی بجلی نہیں پہنچ رہی ہے۔وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے مختلف ادوار میں آئی پی پیز کی پالیسی پر عدالت میں بیان دیا کہ حکومت کو کیپسٹی اور انرجی پیمنٹ کرنا ہوتی ہے اور پاکستان میں سرکاری ہی بجلی کی خریدار ہے۔انہوں نے کہا کہ گرمیوں میں بجلی کے تمام پلانٹس چلتے ہیں اور سردیوں میں کچھ پلانٹس بند کر دیے جاتے ہیں۔عمر ایوب نے عدالت کو آگاہ کیا کہ معاہدوں کے مطابق سستی بجلی خریدنا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔سب سے پہلے ہائیڈل، سولر، نیوکلیئر اور سب سے آخر میں تھرمل بجلی خریدی جاتی ہے لیکن ہم پلانٹس سے بجلی نہیں خریدتے، ان کو کیپسٹی پیمنٹ کرتے ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے عمر ایوب سے استفسار کیا کہ کیا اپریل سے ستمبر تک سارے پلانٹس سے بجلی خریدی جاتی ہے ؟۔عمر ایوب نے موقف اختیار کیا کہ نومبر سے جنوری تک ہائیڈل بجلی کی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آج کے دور کے حساب سے دیکھیں تو پیسے ضائع کئے جا رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ڈیم بنائیں سستی بجلی ملے گی۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آئی پی پیز سے معاہدے قانونی ہیں؟ وزیر بجلی نے ہاں میں جواب دیا، اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔عدالت نے حکم دیا کہ وزیر بجلی تحریری جواب دیں کہ آیا آئی پی پیز معاہدے پاکستان کے مفاد میں ہیں، اس کے علاوہ بین الاقوامی فورمز پر زیر التوا مقدموں اور آئی پی پیز معاہدوں کی تفصیل دی جائے جبکہ یہ بھی بتائیں کہ پاکستان کو بجلی کی کتنی ضرورت ہے؟ کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔