حضرت جابرؓ اگرچہ نہایت ہی بلند مرتبت صحابی تھے، مگر ساتھ ہی بہت سادگی پسند اور بے تکلف تھے۔ ایک دفعہ بعض صحابہؓ ان سے ملنے آئے۔ آپؓ اندر بیٹھے سرکے کے ساتھ روٹی کھا رہے تھے۔ وہی اٹھا کر ان دوستوں کے پاس لے آئے اور ان کو شریک طعام ہونے کی دعوت دی اور ساتھ فرمایا کہ اگر کسی کے پاس اس کے دوست احباب آئیں تو اسے چاہئے کہ جو کچھ حاضر ہو پیش کردے اور مہمانوں کو بھی چاہیے کہ کسی چیز کو حقارت سے نہ دیکھیں اور بے تکلفی کے ساتھ ماحضر تناول کرلیں۔ کیونکہ تکلف فریقین کی ہلاکت کا موجب ہے۔ سیدنا جابرؓ کی شادی بھی ایسی ہی سادگی کا نمونہ تھی۔ جب وہ شادی کے بارے میں نبی کریمؐ کو بتایا تو آپؐ نے فرمایا کہ دوشیزہ سے شادی کی یا شادی شدہ خاتون سے؟ سیدنا جابرؓ نے عرض کیا کہ شادی شدہ سے۔ آپؐ نے فرمایا کہ دوشیزہ سے کرنا چاہئے تھا تاکہ وہ اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تیرے ساتھ کھیلتی۔ (سیدنا جابرؓ نوجوان تھے) سیدنا جابرؓ نے عرض کیا کہ حضور! (جیسا کہ آپ جانتے ہیں) میرے والد غزوہ احد میں شہید ہوگئے۔ میری چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں۔ اگر میں ان کے ساتھ انہی کی طرح ناتجربہ کار لڑکی کو کیسے جمع کرتا۔ اس لئے میں بڑی عمر کی تجربہ کار خاتون سے شادی کرلی تاکہ وہ ان کی خبرگیری کرسکے۔ سیدنا جابرؓ کی یہ بات سن کر نبی کریمؐ بہت خوش ہوئے۔
صحابہ کرامؓ کا تمدن بے حد سادہ تھا۔ حتیٰ کہ شادی بیاہ کے مواقع پر بھی انتہائی سادگی نظر آتی تھی۔ اگر کسی کے پاس مال و دولت نہ ہو تو وہ مقروض ہو کر اپنی زندگی کو تلخ نہیں بناتے تھے۔ بلکہ جو میسر ہوا اسی پر کفایت کرلیتے تھے اور چونکہ یہ روح ہر ایک میں تھی، اس لیے اس بات کو معیوب بھی خیال نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ اچھا سمجھا جاتا تھا۔ ایک صحابی ایک عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ آنحضرتؐ نے فرمایا مہر کے لیے کچھ ہے۔ بولے صرف تہبند ہے۔ آپ نے فرمایا اگر یہ مہر میں دے دو تو ستر پوشی کیسے کرسکو گے۔ کچھ اور تلاش کرو اور نہیں تو لوہے کی ایک انگوٹھی ہی سہی۔ آپ نے پھر قرآن کی چند سورتوں کا سکھانا مہر مقر ر کرکے اس کا نکاح پڑھا دیا۔
تین لاکھ کا چیک:
ایک عالم دین کا واقعہ ہے۔ ان کی زندگی ایک تصنیفی ادارے میں گزری۔ وہ بہت سادہ طور پر رہتے تھے اور اپنی مختصر آمدنی میں بھی وہ ہر ماہ کچھ نہ کچھ بچت کر لیا کرتے تھے۔ ان کی صرف ایک لڑکی تھی۔ اس کی انہوں نے شادی کی تو شادی میں کچھ خرچ نہیں کیا۔ ایک نوجوان سے سادہ طور پر نکاح پڑھایا اور اس کے بعد لڑکی کو رخصت کر دیا۔ البتہ انہوں نے رخصت کرتے ہوئے اپنی لڑکی اور داماد کو ایک چیک دیا۔ یہ چیک 3 لاکھ روپے کا تھا۔
انہوں نے کہا: ’’یہی میری زندگی بھر کی بچت ہے، اس رقم کو میں شادی کی رسوم میں بھی خرچ کر سکتا تھا، تاہم اس کے مقابلے میں مجھے یہ زیادہ پسند آیا کہ میں اس کو نقد تم لوگوں کے حوالے کردوں، تم لوگ اسے سنبھالو اور اس کو اپنی زندگی کی تعمیر میں استعمال کرو۔‘‘
لڑکی اور داماد نے باہم مشورہ کیا تو ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ اس رقم سے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ابتداء میں ان کو کافی محنت کرنی پڑی۔ بعض اوقات بڑے سخت مراحل سامنے آئے، مگر وہ مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے کاروبار پر جمے رہے۔ بالآخر حالات بدلنا شروع ہوئے۔ مذکورہ 3 لاکھ روپے میں برکت ہوئی اور وہ لوگ چند سال کے بعد کافی ترقی کر گئے۔ اب وہ اپنے مقام پر ایک باعزت اور خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔
شادی آدمی کی زندگی کا ایک بے حد سنجیدہ واقعہ ہے۔ وہ دھوم مچانے کا دن نہیں، بلکہ زندگی کی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کا دن ہے۔ اس دن ایک مرد اور عورت اپنے کو ’’گاڑھے اقرار‘‘ (سورۃ النسائ: 21) میں باندھتے ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ نکاح کی تقریب سادہ ہو اور وہ فضول نمائشوں سے بالکل پاک ہو۔ اگر کسی کو خرچ ہی کرنا ہے تو اس خرچ کی ایک اچھی صورت وہ ہے، جس کی مثال اوپر کے واقعہ میں نظر آتی ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post