نفسیاتی مرض نے تین قاتلوں کی موت کو ٹال دیا ہے۔ واضح رہے کہ اس حوالے سے آج کل سابق پولیس اہلکار خضر حیات کا کیس روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر خاصا ہائی لائٹ ہو رہا ہے۔ 11 جنوری کو لاہور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے قتل کے مجرم خضر حیات کو تختہ دار پر لٹکانے کے لئے 15 جنوری کی تاریخ مقرر کر دی تھی۔ تاہم سزا پر عمل درآمد سے تین روز پہلے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے خضر حیات کے اہل خانہ کی درخواست پر پھانسی کو تا حکم ثانی معطل کر دیا تھا۔ اہل خانہ نے اپنی درخواست میں استدعا کی تھی کہ ایک ذہنی مریض کی پھانسی کو روکا جائے۔
ذہنی مرض کی بنیاد پر خضر حیات کی پھانسی روکے جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس نوعیت کے دو دیگر معاملات بھی سپریم کورٹ کے لارجر بنچ میں زیر سماعت ہیں۔ قدر مشترک یہ ہے کہ قتل کے تینوں مجرمان ’’شیزوفرینیا ‘‘ نامی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں۔ تینوں کے ڈیتھ وارنٹ جاری ہو چکے تھے اور جب موت ان سے کچھ فاصلے پر تھی تو سزا پر عملدرآمد روک دیا گیا۔ پھر یہ کہ ان تینوں کا کیس بھی ایک ہی وکیل نے لڑا۔ اور اب سپریم کورٹ کا ایک ہی لارجر بنچ ان مجرمان کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔
اس حوالے سے پہلا کیس قتل کی مجرمہ کنزا بی بی کا ہے۔ لاہور کی کنزا بی بی نے اپنے ہی شوہر اور تین بچوں کو کھانے میں زہر دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا ۔ اس واقعہ کو خاندانی تنازعہ شاخسانہ قرار دیا گیا تھا۔ واردات کے وقت کنزا کی عمر 26 برس کے قریب تھی اور اب وہ 41 کے پیٹے میں ہے۔ قریباً 15 برس پرانے اس کیس میں جرم ثابت ہوجانے پر قبل ازیں سیشن کورٹ نے کنزا کو سزائے موت سنائی تھی۔ جس پر کنزا کے قریبی رشتہ داروں نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ تاہم ہائی کورٹ نے مجرمہ کی سزا برقرار رکھی۔ جس کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی اور عدالت عظمیٰ نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ بعد ازاں صدر مملکت نے کنزا کی رحم کی اپیل مسترد کر دی تھی۔ اور جب سزا پر عملدرآمد کے لئے مجرمہ کے ڈیتھ وارنٹ جاری ہوئے تو کنزا کی وکیل کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائرکی جانے والی درخواست پر پھانسی پر عملدرآمد روک کر معاملہ مزید سماعت کے لئے لارجر بنچ بھیج دیا گیا تھا۔ کنزا کی وکیل کی جانب سے دائر درخواست میں بتایا گیا تھا کہ مجرمہ نفسیاتی مرض ’’شیزوفرینیا‘‘ میں مبتلا ہے ، اور چونکہ جیل رولز کے سیکشن 444 کے تحت ذہنی طور پر مکمل درست نہ ہونے والے فرد کو سزائے موت نہیں دی جاسکتی، لہٰذاکنزا کی پھانسی پر عملدرآمد روکا جائے۔ اب یہ کیس لارجر بنچ میں زیر سماعت ہے۔ ابھی کنزا کے کیس کا فیصلہ نہیں ہو پایا تھا کہ اسی نوعیت کا ایک اور کیس لارجر بنچ کے پاس آگیا۔ یہ کیس قتل کے مجرم امداد علی کا تھا۔
امداد علی کا کیس بھی سولہ سترہ برس پرانا ہے۔ علاقے کی ایک مذہبی شخصیت کو قتل کرنے پر امداد علی کو 2002ء میں وہاڑی کے سیشن کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی۔ اس سزا کے خلاف امداد کی بیوی اپیل میں ہائیکورٹ چلی گئی۔ تاہم قریباً چھ سال بعد لاہور ہائی کورٹ نے نومبر 2008ء میں سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا۔ امداد علی کا کیس ’’جسٹس پروجیکٹ پاکستان‘‘ نامی ایک این جی او نے لڑا، کیونکہ امداد علی کی بیوی کے پاس قانونی جنگ لڑنے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ ہائی کورٹ کے بعد اکتوبر 2015ء میں سپریم کورٹ نے بھی امداد علی کی پھانسی کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی اپیل مسترد کردی۔ بعد ازاں امداد علی کی رحم کی اپیل صدر مملکت کے پاس بھیجی گئی۔ صدر مملکت نے بھی رحم کی اپیل مسترد کردی۔ اس موقع پر امداد کی بیوی نے اپنی خاتون وکیل کی توجہ ایک بار پھر اُس طرح متوجہ کرائی کہ اُس کا شوہر برسوں سے نفسیاتی مرض ’’شیزوفرینیا‘‘ میں مبتلا ہے۔ قبل ازیں 2002ء کو سیشن کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے دوران بھی امداد علی کی بیوی نے یہ ایشو اٹھایا تھا، لیکن اسے نظر انداز کردیا گیا۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پہلی بار امداد کا نفسیاتی مرض اُس وقت سامنے آیا، جب وہ 1998ء میں سعودی عرب سے واپس پاکستان آیا تھا۔ امداد نو عمری میں گھر کے مالی معاملات بہتر کرنے کی غرض سے بطور الیکٹریشن کام کرنے سعودیہ عرب چلا گیا تھا۔ امداد کی اہلیہ نے ٹرائل کورٹ میں بھی اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا تھا کہ شوہر کے مرض سے تنگ آکر وہ اُسے سروسز اسپتال لاہور کے ایک ڈاکٹر احتشام الحق کے پاس لے گئی تھی۔ ڈاکٹر احتشام الحق نے اُسے مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے شوہر کا علاج مینٹل اسپتال میں کرائے۔ جس پر اُس نے امداد کو متعدد بار مینٹل اسپتال لے جانے کی کوشش کی لیکن اُس نے انکار کر دیا۔ جب صدر کی جانب سے رحم کی اپیل مسترد ہوگئی تو مجرم کی وکیل نے نفسیاتی مرض کو بنیاد بناتے ہوئے سزا پر عملدرآمد روکنے کے لئے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی۔ تاہم اس دوران امداد علی کے ڈیتھ وارنٹ جاری کردیئے گئے اور پھانسی کے لئے 20 ستمبر 2016ء کی تاریخ طے کی گئی تھی۔ لیکن اس سے چند روز پہلے اپیل منظور کرتے ہوئے سزا پر عملدرآمد روک دیا گیا اور معاملہ لارجر بنچ کے پاس بھیج دیا گیا، جہاں یہ کیس ابھی زیر سماعت ہے۔ واضح رہے کہ امداد شادی شدہ ہے لیکن اُس کی کوئی اولاد نہیں۔
تیسرا کیس سابق پولیس اہلکار خضر حیات کا ہے جس نے 2001ء میں اپنے ساتھی پولیس اہلکار کو قتل کردیا تھا۔ خضر حیات کو 2003ء میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ 11 جنوری 2019ء کو لاہور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے خضر حیات کو پھانسی پر لٹکانے کی تاریخ 15 جنوری مقرر کردی تھی۔ تاہم ڈیتھ وارنٹ جاری ہونے کے بعد مختلف این جی اوز اور بالخصوص میڈیا پر خضر حیات کی سزا پر عملدرآمد روکنے کے لئے بھرپور مہم چلائی گئی جبکہ مجرم کی والدہ اقبال بانو نے بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ اُس کے ذہنی معذور بیٹے خضر حیات کی پھانسی روکی جائے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے سزا پر عملدرآمد روک کر معاملہ لارجر بنچ بھجوادیا ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پہلے دو کیسوں کے برعکس خضر حیات ٹرائل کے دوران نفسیاتی مریض بنا۔ اس کا ذکر ملزم کے وکیل نے ٹرائل کورٹ میں سماعت کے دوران بھی کیا۔ خضر حیات کا معاملہ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کو بھیجا جاچکا ہے ۔ یہ لارجر بنچ ہی اب کنزا، امداد علی اور خضر حیات کے کیسوں کا فیصلہ کرے گا۔
نفسیاتی مریض قرار دیئے جانے والے پھانسی کے تینوں مجرموں کا کیس ’’جسٹس پروجیکٹ پاکستان‘‘ کی خاتون وکیل بیرسٹر سارہ بلال نے لڑا۔ ’’امت ‘‘ سے بات کرتے سارہ بلال کا کہنا تھا ’’کنزا اور امداد علی کے بعد خضر حیات کا معاملہ بھی لارجر بنچ کے پاس بھیجنا ہماری بڑی کامیابی ہے۔ یہ تینوں نفسیاتی مریض ہیں۔ جبکہ قانون کے تحت کسی نفسیاتی مریض یا پاگل کو پھانسی نہیں دی جاسکتی۔ اب جوفیصلہ لارجر بنچ کرے گا وہ ہی اس نوعیت کے کیسوں میں قانون بن جائے گا‘‘۔٭
٭٭٭٭٭
Next Post