قسط نمبر40
حضرت شریح قاضی ؒ
’’قاضی شریحؒ سے پوچھا گیا: آپ نے علم کیسے حاصل کیا؟ آپؒ نے فرمایا: علماء سے مذکراہ کے ذریعے میں نے علم حاصل کیا اور انہیں بھی بعض معلومات پہنچائیں۔‘‘ (سفیان الاوسیؒ)
انصاف پر مبنی فیصلہ
امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطابؓ نے ایک دیہاتی سے گھوڑی خریدی، اسے قیمت ادا کی، اس پہ سوار ہوئے اور چل دیئے۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ وہ لنگڑانے لگی۔ آپؓ اسے واپس موڑ کر اس شخص کے پاس لے آئے، جس سے خریدی تھی۔ فرمایا: گھوڑی واپس لے لو، یہ لنگڑاتی ہے۔
بیچنے والے نے کہا: امیر المؤمنین! یہ میں واپس نہیں لوں گا، کیوں کہ میں نے صحیح حالت میں آپ کے ہاتھ فروخت کی تھی۔
امیر المؤمنین حضرت عمرؓ نے فرمایا: چلئے، فیصلے کے لیے کسی کو منصف مقرر کرلیں، جو میرے اور آپ کے درمیان عدل و انصاف کی بنیاد پر فیصلہ کرے۔(اس لیے کہ اسلامی اصول یہ ہے کہ دو آدمیوں میں اختلاف ہو تو تیسرے کو حکم (فیصلہ کرنے والا) بنانا چاہئے کہ وہ ان دونوں میں فیصلہ کرے، لہٰذا انہوں نے اپنے درمیان ایک حکم بنالیا)۔
بدوی نے کہا: کیا شریحؒ بن حارث کندی کا فیصلہ آپ کو منظور ہوگا؟
حضرت عمرؓ نے فرمایا: مجھے منظور ہے۔
لہذا دونوں فیصلہ کرانے کی غرض سے قاضی شریحؒ کے پاس پہنچے، انہوں نے پہلے دیہاتی کی بات پورے اطمینان سے سنی، پھر حضرت عمرؓ سے کہا:
امیر المؤمنین! کیا یہ گھوڑی جس وقت آپ نے خریدی تھی اس وقت صحیح چل رہی تھی اور سالم تھی؟
فرمایا: ہاں!
قاضی شریح ؒ نے کہا: اے امیر المؤمنین! جو چیز آپ نے صحیح حالت میں خریدی، اسے اب اپنے پاس رکھئے یا پھر اس حالت میں واپس لوٹائیں، جس حالت میں آپ نے اسے خریدا تھا۔
امیر المؤمنین نے قاضی شریحؒ کی طرف بڑے تعجب سے دیکھا اور فرمایا: کیا یہ فیصلہ انصاف پر مبنی ہے؟
قاضی شریح نے کہا: حق بات اور عدل و انصاف کا تقاضا یہی ہے۔
حضرت عمرؓ یہ فیصلہ سن کر خوش ہوئے اور فرمایا: اب آپ کوفہ تشریف لے جائیں، کیونکہ میں نے آپ کو وہاں کا رئیس القضاۃ (چیف جسٹس) مقرر کردیا ہے، بلاشبہ آپ جیسا نڈر اور باصلاحیت شخص ہی اس اہم منصب پر فائز ہوسکتا ہے۔
جن دنوں امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطابؓ نے شریحؒ بن حارث کندی کو رئیس القضاۃ (چیف جسٹس) کا منصب سونپا، ان دنوں وہ مدینہ منورہ کے معاشرے میں غیر معروف وغیر مشہور نہ تھے، بلکہ اونچے درجے کے صحابہ کرامؓ اور بڑے مرتبہ کے تابعینؒ میں خوب جانے پہچانے جاتے تھے۔
ہر حلقہ میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اہل فضل واہل کمال ان کے علم اور ان کی ذہنیت، ہوشیاری اور سمجھ داری کے قائل تھے۔ یہ یمن کے رہنے والے تھے اور عرب کے مشہور قبیلہ کندی سے ان کا تعلق تھا، چوں کہ اس زمانے میں جو بھی اسلام لے آتا پھر وہ اسلام کو پھیلانے کی محنت میں لگ جاتا تھا۔
جب عرب نورہدایت سے چمکا اور اسلام کی روشن کرنیں سرزمین یمن تک پہنچیں، تو قاضی شریحؒ ان خوش نصیبوں میں ہوئے، جنہوں نے حق تعالیٰ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانے کی سعادت حاصل کی اور حق وہدایت کی دعوت کو قبول کیا۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post