اسلامی قوانین کو جب نافذ کیا جائے تو ان کی برکات معاشرے اور پورے میں نمودار ہوتی ہیں۔ جن دنوں سعودی عرب کے شاہ فیصل مرحومؒ حکمران تھے، وہ امریکہ کے دورے پر گئے۔ امریکی صدر سے مل کر جس ہوٹل میں ٹھہرنا تھا، وہاں آئے۔ ادھر مغربی پریس اور میڈیا سے گفتگو کے دوران مختلف سوالوں کے جواب دیئے۔
ایک نامہ نگار نے سوال کیا: بادشاہ سلامت! آپ کے قوانین غیر انسانی، غیر مہذب، وحشت اور درندگی پر مبنی ہیں، مہذب دنیا سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ہاتھ کاٹ دینا، سر قلم کردینا، سنگسار کر دینا وغیرہ اس ترقی یافتہ دور میں وحشت و درندگی نہیں تو کیا ہے؟
شاہ فیصل شہیدؒ مغربی نامہ نگار کا سوال سن کر مسکرائے اور فرمایا: خدا کا شکر ہے کہ پورےملک میں اسلامی شرعی اور قرآنی قوانین نافذ ہیں۔ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے اور دینی و دنیوی امن و امان اور ڈسپلن سے لیس ہے، جس کے تحت احتساب، مقدمات میں فوری سزا اور جزائ، انصاف اور معاشی ہم آہنگی، ترقی و آسودگی کی ضمانت ہے۔ دینی اور اسلامی قوانین کی وجہ سے اور سزا و جزاء کے خوف سے دینی، دنیوی ڈسپلن اور نظم وضبط بھی موجود ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں آپ کو سعودی عرب آنے کی دعوت دیتا ہوں، آپ اپنی اہلیہ کے ہمراہ تشریف لائیں۔ میرے مہمان رہیں، میں جدہ ایئر پورٹ پر آپ کا خیر مقدم کرنے کے بعد آپ دونوں میاں بیوی کو سونے اور انتہائی قیمتی جواہرات سے لاد دوں گا، پھر آپ اپنی مرضی سے سعودی عرب میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب جہاں چاہیں، جائیں۔ گنجان آباد بازاروں اور ریگزاروں میں گھومیں، ٹیکسی اور جس سواری میں جہاں بھی چاہیں، گھومیں، پھریں۔
پہلی چیز جو آپ محسوس کریں گے اور کھلی آنکھوں سے دیکھیں گے، وہ یہ کہ آپ کو وہاں کوئی دست بُریدہ یعنی ٹنڈا اور ہاتھ کٹا ہوا نہیں دکھائی دے گا (اسلامی قوانین کا نفاذ تو ہاتھوں اور جان ومال کی حفاظت کیلئے ہوتا ہے) دوسری چیز جو آپ دیکھیں گے کہ آپ کو بھکاری اور بھیک مانگنے والا نہیں ملے گا۔ اس لئے کہ غرباء کو زکوٰۃ کی رقوم فراوانی سے ملتی ہیں۔ کئی مرتبہ زکوٰۃ لینے والے نہیں ملتے اور زکوٰۃ دہندہ اس کو سرکاری خزانے میں جمع کروا دیتا ہے۔
جہاں سے اگر کوئی ضرورت مند ہو تو اسے دی جاتی ہے۔ تیسرے اس سارے سفر میں آپ کی طرف کوئی آدمی بھی میلی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ کئی لوگ دکانیں بغیر تالوں کے کھلی رکھتے ہیں۔ اس مشق کے بعد آپ میرے ہی جہاز پر جس سے آپ گئے تھے، واپس انہی زیوارت وجوہرات میں اسی امریکی ایئر پورٹ پر یا امریکہ کے کسی بڑے مہذب شہر کے ایئر پورٹ پر اتریں اور بذریعہ ٹیکسی اسی ہوٹل پر تشریف لائے۔ اگر آپ خیریت سے یہاں پہنچ گئے، مع ان زیورات وغیرہ کے تو آپ کا سوال حق بجانب ہے، ورنہ مجھے آپ سے پوچھنے کا حق دیں کہ وحشی یا مہذب کون ہے؟ میں یا آپ!
شاہ فیصل مرحوم کا یہ دندان شکن و معقول اور درست جواب تھا۔ جولوگ اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ کہتے ہیں (جیسا کہ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ شاہ فیصل مرحوم سے نامہ نگار نے کہا کہ آپ کے قوانین وحشیانہ ہیں) یقین کیجئے وہ خود وحشی ہیں۔ دراصل انہوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ چوری کرنا کیسا فعل ہے۔ ایک ایسے جرائم پیشہ کا ہاتھ کاٹنے سے اگر ہزاروں انسانوں کو سکون قلب کی دولت ملتی ہو اور وہ بے جا ظلم و تکلیف اور نقصان سے بچتے ہوں تو کون عقلمند اور ذی شعور ہے جو کہہ دے کہ یہ غلط ہوا۔
حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے تفسیر میں بجا لکھا ہے کہ ’’جو سزا چور کو دی جارہی ہے وہ مال مسروقہ (یعنی چوری کیا ہوا مال) کابدلہ نہیں، بلکہ اس کے فعل سرقی و چوری کی سزا ہے تاکہ اسے اور دوسرے چوروں کو تنبیہ اور عبرت ہوجائے۔ بلاشبہ جہاں کہیں یہ حدود جاری ہوتی ہیں (جیسا سعودی عرب میں) وہاں دو چار دفعہ ہی سزا دینے کے بعد چوری کا دروازہ مکمل بند ہوجاتا ہے۔ چوری کے جرم میں ہاتھ کاٹا جانا خود پروردگار عالم کی مقرر کردہ سزا ہے۔ اگر آپ چوری کے مفاسد کا گہری سے مطالعہ کریں اور اس کے بعد اس کی سزا پر غور کریں، تب کہیں جاکر اس سزا کی قدرو قیمت معلوم ہوسکے گی۔ جن لوگوں نے اسلام کا مطالعہ کیا ہے وہ اس سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ یہ دین حق اپنے ماننے والوں کو جائز طریقے سے کھانے کمانے کی تاکید کرتا ہے اور اسی کی ترغیب دیتا ہے تاکہ جفاکشی اور محنت سے اپنے لئے رزق حلال کریں۔ جیسے تجارت، زراعت، صنعت وحرفت اور مزدوری یہ معاش کے طریقے ہیں، جنہیں وہ علی الاعلان اختیار کرسکتے ہیں۔ ان کاموں میں نہ کوئی فتنہ وفساد اور نہ کوئی لڑائی جھگڑا، امن و امان بھی قائم رہتا ہے اور انسان اپنی روزی بھی حاصل کرتا ہے۔ اس کے برعکس چوری، غصب اور لوٹ مار ایسے طریقے ہیں جن سے امن و امان اور شہری زندگی میں برہمی وغصہ پیدا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ان طریقوں کو حرام قراردیا ہے۔(گلدستہ واقعات)
Prev Post
Next Post