سائوتھ انڈین فلم انڈسٹری میں پہلی انٹری ہی دھماکے دار دی

0

ثنا اللہ خان احسن
ابھی میں ہندی فلموں میں ہی مصروف تھا کہ آر کے اسٹوڈیو میں شوٹنگ کے دوران ایک دن جیتندر میرے پاس آئے اور ایک صاحب کی طرف اشارہ کرکے بولے کہ یہ تیلگو فلموں کے پروڈیوسر ہیں اور دو سال سے آپ سے ملنا چاہ رہے ہیں، لیکن ان کی ہمت نہیں پڑرہی تھی۔ میں نے اس شخص سے ہاتھ ملایا اور پوچھا کہ بھائی تم سے کس نے کہہ دیاکہ میں بڑا آدمی ہوں یا بڑا رائٹر ہوں۔ میں تو ایک بالکل عام سا بہت چھوٹا آدمی ہوں۔ وہ شخص بولا کہ نہیں سر جی آپ بہت بڑے آدمی ہو۔ میرا بھائی آپ سے ملناچاہتا ہے۔ اس کے بعد میری ملاقات ہنومنت رائو سے سے ہوئی جو پدمالیا فلمز کے پروڈیوسرتھے۔ سائوتھ انڈین فلموں کا ایک بہت بڑا نام اور بہترین انسان۔ اس نے مجھ سے کہا کہ کہ وہ اپنی ایک فلم کا ری میک ہندی زبان میں بنانا چاہ رہا ہے۔ اس نے مجھے اسکرپٹ دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ جب آپ سائوتھ انڈین فلم کا ری میک بناتے ہیں تو رائٹر کو بڑی سست رفتاری سے ایک ایک سین اور لفظ دیکھ کر اسکرپٹ کو لکھنا پڑتا ہے تاکہ اصلی اور ری میک میں فرق نہ رہے۔ میرے لئے یہ کام کرنا بہت مشکل ہوگا۔ میں پورا اسکرپٹ دوبارہ نئے سرے سے لکھ سکتا ہوں۔ اس نے کہا کہ جیسا آپ کا دل چاہے لکھئے۔ میں نے پورا اسکرپٹ دوبارہ لکھا۔ اس ری میک میں جیتندر اور ہیما مالنی بھی تھے اور فلم کا نام تھا ’’میری آواز سنو‘‘۔ اس طرح میری سائوتھ انڈین فلموں میں انٹری ہوئی۔ شروع میں اس فلم کو سنسر بورڈ کی طرف سے کچھ مسئلہ ہوا۔ لیکن پھر یہ سینما میں چل پڑی۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اگر کسی فلم پر ریلیز سے پہلے پابندی لگ جائے تو یہ ایک طرح سے اس فلم کی پبلسٹی میں چار چاند لگا دیتی ہے۔ ایسا ہی ’’میری آواز سنو‘‘ کے ساتھ ہوا اور ریلیز ہونے کے ساتھ ہی یہ ایک بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ مجھے اس فلم کیلئے بہترین رائٹر کا ایوارڈ ملا اور اس طرح میری سائوتھ انڈیا کی پہلی ہی فلم نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئے۔
اب میرا کام تین حصوں میں بٹ گیا تھا۔ من موہن ڈیسائی، پرکاش مہرا اور سائوتھ فلم انڈسٹری۔ سائوتھ انڈین فلم والے وقت کے پابند اور حساب کتاب میں بہت صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ میں جب یہاں کام کرنے لگا تو کبھی کسی پروڈیوسر سے پیسے کے لین دین پر کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ میں نے جم کر ان کے لئے کام کرنا شروع کردیا۔ فلموں میں لکھنامیری زندگی بن چکا تھا۔ لیکن زندگی صرف یہی نہیں تھی۔ میری گھریلو زندگی میں اس شدید ترین مصروفیات کی وجہ سے مسائل پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ میری بیوی اور بچے احتجاج کرنے لگے کہ میں ان کو اور گھر کو وقت نہیں دے پارہا ہوں۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ میری شادی انتہائی گھریلو انداز میں ہوئی تھی۔ یہ اس کے کچھ عرصے بعد کی بات ہے کہ جب میرے سوتیلے باپ نے مجھے مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا تھا اور میں کالج کے اسٹاف ہائوس میں رہنے لگا تھا۔ میرے کالج میں بھی بہت لڑکیاں تھیں اور شو بز میں بھی بے شمار خواتین تھیں، لیکن میری زندگی بچپن سے جوانی تک اتنے تلخ حالات میں گزری تھی کہ مجھے ماں اور باپ کی محبت کے علاوہ کسی اور محبت کا کبھی خیال ہی نہیں آیا۔ رومانس نام کی کوئی چیز کبھی میری زندگی میں نہیں آئی۔ میری شادی ایک عام سی لڑکی سے ہوئی۔ میری بیوی کا نام عذرا ہے اور وہ ایک بالکل خالص گھریلو خاتون تھی جس کا پس منظر بھی میری طرح غربت زدہ ماحول سے تھا۔ 1976ء میں ہمارے یہاں پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام سرفراز خان رکھا گیا۔ اس کے بعد دوسرا بیٹا قدوس خان اور تیسرا شاہنواز خان ہے۔ میری بیوی اور فیملی ایک غریب ماحول سے آئے تھے۔ میں نے ان کو بمبئی کے بہترین علاقے میں فلیٹ اور بنگلہ لے کر دیا۔ زندگی کی ہر آسائش دی لیکن میں ان کو وقت نہیں دے پارہا تھا۔ میری زندگی میں یہ تین بڑے مسئلے بن گئے تھے۔ ایک طرف پرکاش مہرہ اور من موہن ڈیسائی کی چپقلش کے درمیان ہونے کی وجہ سے مستقل تنائو والی کیفیت۔ دوسری طرف سائوتھ اور ہندی فلموں کے درمیان کے فرق کا تنائو اور تیسرا میرے کام اور فیملی کے درمیان تنائو۔ میں مختلف حصوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔ یہ تمام حصے ایسے تھے کہ جن کو آپ کسی صورت جوڑ کر نہیں چل سکتے۔ یہ بالکل ایسا تھا جیسے کہ ایک آئینے کے کئی ٹکڑے ہوجائیں جن میں سے ہر ٹکڑے میں آپ کو اپنا چہرہ الگ الگ نظر آتا ہے۔ لیکن کسی بھی طریقے سے اس آئینے کے ٹکڑوں کی درمیانی لکیر جوڑ کر ایک چہرہ نہیں بن سکتا۔ ان سب کے باوجود مجھے اپنی زندگی یا کام پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔ ہم بہرحال ایک فیملی تھے۔ میں نے اپنے بچپن میں جو حالات دیکھے تھے کہ ہماری فیملی ٹوٹ پھوٹ گئی تھی۔ میرے ماں باپ سے پہلے میرے دادا کی زندگی بھی ایسی ہی گزری تھی۔ اس ٹوٹی پھوٹی فیملی کا مسائل اور کرب کیسے ہوتے ہیں؟ میں اچھی طرح جانتا تھا۔ اس لئے مجھے ہمیشہ تسلی اور سکون رہا کہ کچھ بھی ہو، لیکن بہرحال میرا خاندان میرے بچے اور بیوی جڑے ہوئے ہیں۔
فلموں کے مکالمات اور منظر نگاری کے ساتھ ساتھ جب میں نے ایکٹنگ بھی شروع کردی تو میری مصروفیات مزید بڑھ گئیں۔ بطور اداکار میری سب سے پہلی فلم راجیش کھنہ کی ’’داغ‘‘ تھی۔ اس فلم میں، میں نے ایک وکیل کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد میں نے ’’دل دیوانہ‘‘، ’’مقدر کا سکندر‘‘ اور ’’مسٹر نٹور لال‘‘ میں بھی بطور سپورٹنگ اداکار مختصر کردار ادا کئے۔ 1984ء سے مجھے فلموں میں باقاعدہ بڑے کردار ملنے لگے جن میں ’’ماسٹر جی‘‘، ’’دھرم ادھیکاری‘‘، ’’نصیحت‘‘، ’’دوستی دشمنی‘‘، ’’گھر سنسار‘‘، ’’لوہا‘‘، ’’انصاف کی پکار‘‘، ’’خون بھری مانگ‘‘ اور ’’خود غرض‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ 1988ء سے مجھے فلموں میں مرکزی کردار ملنے لگے۔ ان فلموں میں ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘، ’’بیوی ہو تو ایسی‘‘، ’’گھر ہوتو ایسا‘‘، ’’ہم ہیں کمال کے‘‘، ’’باپ نمبری بیٹا دس نمبری‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ بطور ولن میرا کردار بہت مشہور ہوگیا اور میں بھارتی فلموں میں ٹاپ کا ولن شمار ہونے لگا۔ ایک دن میرا چھوٹا بیٹا قدوس خان اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کر واپس آیا تو اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ میری فلموں کے آخر میں بطور ولن ہمیشہ میری زبردست پٹائی ہوتی تھی۔ میرے بیٹے کے دوست اور کلاس فیلو اس کا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ تمہارا باپ ہر فلم میں لوگوں کو مارتا پیٹتا ہے اور دنگا فساد ظلم کرتا ہے۔ لیکن سب سے آخر میں اس کی بڑی زبردست کٹائی ہوتی ہے۔ میرا بیٹا یہ سب سن طیش میں آجاتا اور اکثر اپنے دوستوں سے لڑ جھگڑ پڑتا۔ نتیجے میں اس کی بھی پٹائی ہوتی اور کپڑے پھٹ جاتے۔ ایک دن جب وہ گھر آیا تو اس کو سر میں کافی گہری چوٹ لگی ہوئی تھی۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت زیادہ افسوس اور شرمندگی محسوس ہوئی۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ اب مزید ولن والے کردار قبول نہیں کروںگا۔ 1983ء میں بننے والی فلم ’’ہمت والا‘‘ ایک کامیڈی فلم تھی جس میں میں نے بطور مزاحیہ اداکار کام کیا جو بے حد پسند کیا گیا اور اس طرح میں فلموں میں مزاحیہ اداکاری کرنے لگا۔ خاص طور پر گووندا کے ساتھ میرے مزاحیہ کردار بڑے ہٹ ہوئے، جن میں میرے بے ساختہ ڈائیلاگز کا بھی بڑا دخل تھا۔ آپ کو فلموں میں بھی میری اداکاری اور ڈائیلاگز میں تھیٹر والی برجستگی اور حاضر جوابی نظر آئے گی۔
فلم انڈسٹری کیلئے میں نے ایک کام اور بھی کیا۔ این ٹی رامارائو مشہور ایکٹر پروڈیوسر ڈائریکٹر ایڈیٹر اور سیاستدان تھے۔ جب این ٹی راما رائو آندھرا پردیش کے وزیر اعلی بنے تو انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ میں تمہارے ذمے ایک کام لگانا چاہتا ہوں۔ اس زمانے میں تمام جنوبی ہندی فلموں کی تمام پوسٹ پروڈکشن کا کام مدراس میں ہوا کرتا تھا۔ حتی کہ بمبئی میں شوٹ شدہ ایک سین کی بھی ساری پوسٹ پروڈکشن مدراس میں ہوتی۔ راما رائو آندھرا پردیش کی فلموں کی الگ شناخت چاہتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آندھرا پردیش کے زیادہ تر پروڈیوسرز اپنی فلموں کی پوسٹ پروڈکشن مدراس میں کرتے ہیں جس کی وجہ سے تامل اور تیلگو فلمیں ایک ہی جیسی سمجھی جاتی ہیں۔ آپ ان پروڈیوسرز کو بتائیں کہ میں ان کو آندھرا پردیش میں بہت سستی زمین مہیا کرنے کو تیار ہوں جس پر وہ ایک بہترین اسٹوڈیو تعمیر کریں۔ میں بیشتر سائوتھ ہندی فلموں کے پروڈیوسرز سے واقف تھا، کیونکہ ان کی ہندی ری میک کے لئے میری ہی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ جب میں نے ان پروڈیوسرز سے بات کی تو وہ سب بڑی خوشی خوشی اس بات پر راضی ہوگئے اور یوں سائوتھ میں دو مختلف فلم انڈسٹریاں وجود میں آگئیں۔ تامل اور تیلگو۔ اس کے لئے حیدرآباد میں ایک اسٹوڈیو تعمیر کیا گیا اور تیلگو فلموں کی اپنی ایک الگ شناخت اور اسٹوڈیو وجود میں آیا (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More